ہرثمہ بن سلیم روایت کرتے ہیں:
میں حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ جنگ صفین کے لیے روانہ ہوا۔ جب ہمارا قافلہ سرزمین کربلا پر پہنچا تو مولا علیؑ نے ہمیں نماز کے لیے ٹھہرنے کا حکم دیا۔ نماز سے فراغت کے بعد، آپؑ نے زمین سے ایک مٹھی خاک اٹھائی، اُسے سونگھا، پھر نگاہیں جھکائیں اور فرمایا:
خوش نصیب ہے تو، اے مٹی
یقیناً ایک ایسی جماعت تجھ سے اُٹھے گی جو قیامت کے دن بلا حساب جنت میں داخل ہو گی۔
جب میں سفر سے واپس آیا تو اپنی زوجہ جرداء سے، جو حضرت علیؑ کی پیروکار تھی، مخاطب ہو کر کہا:
کیا میں تمہیں اپنے مولا کی کہی ہوئی ایک عجیب بات نہ سناؤں؟ جب ہم کربلا پہنچے تو علیؑ نے وہاں کی مٹی سونگی اور فرمایا:خوش نصیب ہے تو، اے مٹی، تجھ سے ایک ایسی قوم اٹھے گی جو بلا حساب جنت میں جائے گی۔ کیا انہیں علم غیب حاصل ہے؟ جرداء نے بڑے اعتماد سے جواب دیا:
اے میرے شوہر، ایسی باتیں زبان پر نہ لایا کرو۔علیؑ جو کچھ کہتے ہیں، وہی حق ہوتا ہے۔
وقت گزرتا گیا… یہاں تک کہ یزید کی حکومت آ گئی اور ابن زیاد نے امام حسینؑ کے خلاف لشکر ترتیب دیا۔ میں بھی اس فوج میں شامل تھا۔ جب ہم کربلا پہنچے اور میری نگاہ امام حسینؑ اور ان کے اصحاب پر پڑی، تو اچانک وہی لمحہ ذہن میں تازہ ہو گیا، وہی مٹی، وہی میدان، اور علیؑ کے وہ معنی خیز الفاظ۔
میرا دل ندامت سے بھر گیا۔ ایک درد نے روح کو جھنجھوڑ دیا۔
میں نے فوراً اپنے گھوڑے کا رخ امام حسینؑ کی طرف موڑا، حاضر ہو کر سلام کیا اور حضرت علیؑ کا وہ جملہ دہرا دیا۔
امام حسینؑ نے دریافت فرمایا:
کیا تم ہماری نصرت کے لیے آئے ہو یا دشمنوں کے ساتھ ہو؟
میں نے كہا:نہ میں آپ کے ساتھ ہوں، نہ ان کے ساتھ۔ میں اپنے اہل و عیال کو پیچھے چھوڑ آیا ہوں اور ابن زیاد کی جانب سے ان کی سلامتی کے بارے میں فکرمند ہوں۔
امامؑ نے فرمایا: پھر فوراً یہاں سے چلے جاؤ اور ہمارا انجام نہ دیکھو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، آج جو کوئی ہمارے قتل کو دیکھے اور ہماری مدد نہ کرے، وہ سیدھا جہنم میں جائے گا۔
ہرثمہ کہتا ہے:
میں فوراً کربلا سے نکل گیا، تاکہ وہ منظر نہ دیکھوں جسے دیکھ کر خاموشی برتنا دوزخ کا سبب ہو۔
راوی کا بیان:
امام حسینؑ کے تمام اصحاب چنیدہ تھے، نہ ان میں کسی کی کمی تھی، نہ کوئی غیر شامل ہوا۔ اور یہی وہ فرق ہے
ان خوش نصیبوں میں جو لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر، ہر قیمت پر امام کے حضور پہنچے اور جان نچھاور کر دی اور ان میں
جو امامؑ کے سامنے موجود ہو کر بھی دنیا کے فانی فائدے کو حق کی صدا پر ترجیح دے بیٹھے۔
کوئی تبصرہ نہیں! سب سے پہلا تبصرہ کرنے والے بنیں۔