رسول اللہ(ص) کے وصال بعد جب سقیفہ بنی ساعدہ میں لوگوں نے آپ کے حق سے سرپیچی کرتے ہوئے اپنے لئے الہی خلیفہ کو چھوڑ کر ابوبکر بن ابی قحافہ کو خلیفہ چن لیا۔اور آپ نے اپنے حق کے دفاع کے لئے لوگوں کے سامنے تمام تمام قرآنی نصوص اور پیغمبر اکرم(ص) کی بیان کردہ احادیث تو پیش کی لیکن قبضہ شمشیر پر ہاتھ نہ رکھا بلکہ 25 سال تک گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرتے رہے۔البتہ اس طویل دور میں جب بھی خلفائے ثلاثہ پر مشکل وقت پڑا آپ نے ان کی مشکلات کو حل کرنے اور انہیں مشورہ دینے سے بالکل بھی دریغ نہیں کیا۔یہاں تک کہ تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کے دور میں اسلامی حکومت کے ہر بڑے عہدے پر بنی امیہ کے لوگ براجمان تھے اور ان کی مالی بدعنوانیاں اس عروج پر پہونچیں کہ لوگوں نے مشتعل ہوکر انہیں قتل کردیا۔
امام علی علیہ السلام مکتب تشیع کے پہلے امام،رسول خدا(ص) کے داماد، کاتب وحی، اہل سنت کے نزدیک چوتھے خلیفہ، حضرت فاطمہ(س) کے شریک حیات اور گیارہ شیعہ آئمہ(ع) کے والد اور جد امجد ہیں۔ تمام شیعہ اور اکثر سنی مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔ رسول اللہ(ص) نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو آنحضرت(ص) پر سب سے پہلے آپ ایمان لائے۔ شیعوں کے مطابق آپ بحکم خدا پیغمبر اکرم(ص) کے بلا فصل جانشین ہیں جس کا اعلان پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی زندگی میں مختلف مواقع پر کیا۔ قرآن کریم کی صریح آیات کی روشنی میں آپ کی عصمت ثابت ہے۔ شیعہ سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریباً 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔ شب ہجرت رسول خدا(ص) کے بستر پر سوکر حضور کو قریش کی گزند سے آپ نے بچایا۔ مدینہ میں جب مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم ہوا تو رسول خدا(ص) نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ آپ اسلام کے مایہ ناز سپہ سالار اور جنگ تبوک کے سوا پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ تمام غزوات میں شریک تھے۔ جنگ تبوک میں رسول اللہ(ص) کے فرمان پر مدینے میں رہے۔
رسول اللہ(ص) کے وصال بعد جب سقیفہ بنی ساعدہ میں لوگوں نے آپ کے حق سے سرپیچی کرتے ہوئے اپنے لئے الہی خلیفہ کو چھوڑ کر ابوبکر بن ابی قحافہ کو خلیفہ چن لیا۔اور آپ نے اپنے حق کے دفاع کے لئے لوگوں کے سامنے تمام تمام قرآنی نصوص اور پیغمبر اکرم(ص) کی بیان کردہ احادیث تو پیش کی لیکن قبضہ شمشیر پر ہاتھ نہ رکھا بلکہ 25 سال تک گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرتے رہے۔البتہ اس طویل دور میں جب بھی خلفائے ثلاثہ پر مشکل وقت پڑا آپ نے ان کی مشکلات کو حل کرنے اور انہیں مشورہ دینے سے بالکل بھی دریغ نہیں کیا۔یہاں تک کہ تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کے دور میں اسلامی حکومت کے ہر بڑے عہدے پر بنی امیہ کے لوگ براجمان تھے اور ان کی مالی بدعنوانیاں اس عروج پر پہونچیں کہ لوگوں نے مشتعل ہوکر انہیں قتل کردیا۔
اب اسلامی خلافت کے لئے مسلمانوں کی نظر میں علی(ع) سے موزوں کوئی دوسرا شخص نہیں تھا جو ان مشکلات حالات میں ریاست میں وبا کی طرح پھیلی بدعنوانی کا مقابلہ کرکے اسلامی حکومت کے اقتدار و عظمت رفتہ کو بحال کرسکے۔چنانچہ مدینہ و اطراف مدینہ کی بہت سی سربرآوردہ شخصیات کے اصرار پر علی(ع) بمشکل تمام خلافت کا عہدہ سنبھالنے کے لئے تیار ہوئے۔
آپ کی ظاہری حکومت تقریباً 4 برس کچھ مہینہ تھا جس میں آپ کو 3 بڑی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار مسجد کوفہ میں نماز کی حالت میں ایک خارجی کے ہاتھوں شہید ہوئے اور مخفیانہ طور پر نجف میں دفن کردیئے گئے۔
آپ کے فضائل کے مقابل دوسرے لوگوں کے حق میں بہت سی احادیث گھڑی گئیں۔ خاص طور پر بنی امیہ کے دور میں معاویہ کے کہنے پر منبروں سے آپ پر لعن کیا گیا اور آپ کے مداحوں کو نہ صرف ڈرایا دھمکایا گیا بلکہ انہیں یا تو جیل خانوں میں بند کردیا جاتا یا انہیں قتل کر دیا جاتا تھا یہاں تک کہ لوگوں کو اپنے بچوں کا نام “علی” رکھنے سے بھی منع کردیا گیا تھا۔
کلام، تفسیر اور فقہ سمیت بہت سے علوم کا سلسلہ آپ تک پہنچتا ہے اور مختلف مکاتب فکر کے دانشور اور نابغہ شخصیات اپنا سلسلہ آپ ہی سے متصل کرتے ہیں۔ آپ غیر معمولی جسمانی قوت کے مالک، بہت زیادہ بہادر اور ساتھ ساتھ حلیم و بردبار، درگذر کرنے والے، مہربان اور حسن سلوک رکھنے والے اور صاحب ہیبت تھے۔ آپ چاپلوسوں کے ساتھ نہایت سختی سے پیش آتے تھے اور لوگوں کو حکومت اور رعایا کے دوطرفہ حقوق کی یادآوری کرتے تھے اور آپ نے ہمیشہ سختی کے ساتھ اپنی حکومت کے ہر شعبہ میں عدل کو نافذ کیا اور آخری دم تک اس اصول پر قائم رہے۔
نسب،کنیت اور لقب
نسب:آپ کا نسب علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قُصَی بن کلاب، ہاشمی قرشی ہیں۔آپ کے والد ماجد حضرت ابوطالب ایک سخی اور عدل پرور انسان اور عرب کے درمیان انتہائی قابل احترام تھے۔ وہ رسول اللہ(ص) کے چچا اور حامی اور قریش کی بزرگ شخصیات میں سے تھے۔(1)حضرت ابوطالب(ع) سالہا سال رسول خداؐ کی حمایت و سرپرستی کے بعد بعثت کے 10ویں سال ایمان کامل کے ساتھ انتقال کرگئے۔(2)
والدہ ماجدہ:آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔(3)
بھائی:طالب، عقیل اور جعفر۔
بہنیں:ہند یا ام ہانی، جمانہ، ریطہ یا ام طالب اور اسماء۔(4)
کنیت: ابوالحسن، ابوالحسین، ابوالسبطین، ابوالریحانتین، ابوتراب اور ابوالآئمہ
القاب:امیرالمؤمنین، یعسوب الدین والمسلمین، مبیر الشرک والمشرکین، قاتل الناکثین والقاسطین والمارقین، مولٰی المؤمنین، شبیہ ہارون، حیدر، مرتضی، نفس الرسول، أخو الرسول، زوج البتول، سیف اللّہ المسلول، امیر البررة، قاتل الفجرة، قسیم الجنّة والنار، صاحب اللواء، سیّد العرب، کشّاف الکرب، الصدّیق الأکبر، ذوالقرنین، الہادی، الفاروق، الداعی، الشاہد، باب المدینۃ، والی، وصیّ، قاضی دین رسول اللّہ، منجز وعدہ، النبأ العظیم، الصراط المستقیم والأنزع البطین۔(5)
امیر المؤمنین علی(ع) کا مخصوص لقب
امیرالمؤمنین کے معنی مؤمنین کے امیر، حاکم اور رہبر کے ہیں۔ اہل تشیع کے مطابق یہ لقب حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص ہے۔ ان کے مطابق یہ لقب پہلی بار پیغمبر اسلام(ص) کے زمانے میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے استعمال کیا گیا اور صرف آپ ہی سے مختص ہے۔ اسی لئے شیعہ حضرات اس کا استعمال دوسرے خلفاء حتی امام علی علیہ السلام کے علاوہ دوسرے آئمہ(ع) کے لئے بھی صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔
انگوٹھی کا نقش
امام علی علیہ السلام کی انگشتری کے لئے تین نقش منقول ہیں:
’اللَّہُ الْمَلِکُ وَ عَلِیٌّ عَبْدُہ ‘‘۔اللہ بادشاہ اور علی اس کا بندہ ہے۔(6)’’اللَّہُ الْمَلِکُ‘‘صرف خدا ہی بادشاہ ہے۔(7)’’ أَسْنَدْتُ ظَہرِی إِلَى اللَّہ‘‘۔میری تمام آرزوئیں اللہ سے وابستہ ہیں۔(8)
سوانح حیات
امام علی علیہ السلام 13 رجب بروز جمعہ سن 23 عام الفیل خانہ کعبہ کے اندر متولد ہوئے۔(9)
کعبہ میں آپ کی ولادت کی روایت کو سید رضی، شیخ مفید، قطب راوندی اور ابن شہرآشوب سمیت تمام شیعہ علماء اور حاکم نیشاپوری، حافظ گنجی شافعی، ابن جوزی حنفی،ابن صباغ مالکی، حلبی اور مسعودی سمیت بیشتر سنی علماء متواتر (مسَلَّمہ) سمجھتے ہیں۔(10)
آپ 19 رمضان سن 40 ہجری قمری کی صبح ابن ملجم مرادی کے ہاتھوں مسجد کوفہ میں زخمی ہوئے اور اسی مہینے کی 21 تاریخ کو جام شہادت نوش کر گئے۔(11)
بچپن کا دور
آپ چھ سال کے تھے کہ مکہ میں قحط پڑ گیا۔ ابوطالب کا کنبہ بڑا تھا اور پورے کنبے کے اخراجات برداشت کرنا قحط سالی میں ان کے لئے کافی دشوار تھا۔ اسی بنا پر پیغمبر اکرم(ص) اور آپ کے چچا عباس اور حمزہ نے اس سلسلے میں ابوطالب علیہ السلام کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ عباس جعفر کو، حمزہ طالب کو اور رسول اللہ(ص) حضرت علی (ع) کو اپنے گھر لے گئے۔(12)
تعلیم و تربیت
اگرچہ تاریخی روایات کے مطابق رسول اللہ(ص) کے گھر آپ کی منتقلی قحط سالی کی وجہ سے تھی لیکن خود آپ کے کلام میں اس بات کی طرف ایسا کوئی اشارہ نہيں ملتا اور لگتا ہے کہ مشیت الہی کا تقاضا تھا کہ علی(ع) رسول اللہ(ص) کے گھر میں منتقل ہوں ـ یا یوں کہئے کہ رسول اللہ(ص) کو حکم تھا کہ اللہ کے ولی اور اپنے جانشین کو اپنے گھر منتقل کریں اور اللہ کی مشیت حقہ کے مطابق ان کی تربیت کریں اور آپ براہ راست سیدالمرسلین(ص) کے مکتب سے علوم کے خزانے سمیٹ لیں، حالانکہ قبل ازاں بھی ان کا گھر الگ نہ تھا اور جب علی(ع) پیدا ہوئے تو رسول اللہ (ص) نے ـ جو اس وقت ابوطالب(ع) کی زیر سرپرستی تھے ـ آپ کی تربیت کا آغاز کردیا تھا۔
مروی ہے کہ جب علی(ع) پیدا ہوئے تو رسول اللہ(ص) پہلے دن سے ہی آپ کو چھوٹے بھائی یا اپنی اولاد کی نظر سے دیکھتے تھے اور آپ کی تربیت میں فاطمہ بنت اسد(س) کا ہاتھ بٹاتے تھے، آپ کے گہوارے کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ جاتے تھے یا پھر علی(ع) کو گود میں لیتے تھے، آپ کو کھانا کھلاتے تھے اور سلاتے تھے۔ (13) جب علی(ع) نے کچھ بڑے ہوکر زبان کھولی تو رسول اللہ(ص) ہی نے آپ کو زبان سکھانے کی ذمہ داری سنبھالی۔ آپ(ص) علی(ع) کو کندھے پر اٹھاتے اور کوہ و صحرا کی سیر کراتے اور آپ سے بات چیت کرتے اور آپ کے تجسس آمیز سوالات کے جوابات دیتے؛ علی(ع) رسول اللہ(ص) کے خاندان کے رکن تھے اور ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔(14)
اسی پیوستگی اور دائمی معیت و ہمراہی کی بنا پر ہی سنی اور شیعہ دونوں مذاہب کے علماء سے مروی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے علی(ع) سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’یا علی أنت مني وأنا منك‘‘۔ اے علی! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ (15) اور فرمایا:’’اِنَّ علیاً لَحْمُہ مِنْ لَحْمِي و دَمُہُ مِنْ دَمِي‘‘۔علی کا گوشت میرے گوشت سے اور ان کا خون میرے خون سے ہے)۔(16)
اور علی(ع) رسول اللہ(ص) کے گھر سے ہی علوم باطنیہ اور علوم ظاہریہ کے مالک بنے یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا:’’أعلم أمتي من بعدي علي بن أبی طالب‘‘۔ (میرے بعد میری امت کے عالم ترین فرد علی بن ابیطالب(ع) ہیں)۔(17) اور علی(ع) خود فرماتے تھے:’’سلوني قبل ان تفقدوني فإني لا أُسأَلُ عن شيءٍ دونَ العرشِ إلّا أَخبرتُ عَنہ‘‘۔ تم مجھے کھودینے سے قبل ہی مجھ سے جو چاہو پوچھ لو پس یقیناً میں عرش کے نیچے ہر اس چیز کا جواب دے سکتا ہوں جس کے بارے میں مجھ سے پوچھا جائے)۔(18)
رسول اللہ(ص) آٹھ سال کی عمر میں حضرت ابوطالب(ع) کے گھر میں منتقل ہوئے تھے اسی طرح حضرت علی(ع) چھ سال کی عمر میں رسول اللہ(ص) کے گھر منتقل ہوئے۔
امام علی(ع) خود اس دور کے بارے میں فرماتے ہیں: “۔۔۔ تم جانتے ہو کہ رسول اللہ(ص) کے نزدیک میرا کیا مرتبہ تھا اور آپ سے میری قرابت کس حد تک تھی۔ جب میں بچہ تھا رسول اللہ(ص) مجھے اپنے ساتھ سلاتے اور مجھے اپنے سینے پرجگہ دیتے تھے اور مجھے اپنے بستر پر لٹاتے تھے؛ یہاں تک کہ میرا بدن اپنے بدن سے مس کرتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھایا کرتے تھے۔ کبھی کچھ دہن مبارک میں چبا کر مجھے کھلاتے تھے۔ آپ نے کبھی مجھ سے جھوٹ نہیں سنا اور میرے کردار میں کبھی کسی خطا کا مشاہدہ نہیں کیا۔ ۔۔۔ اور میں اس طرح آپ(ص) کے پیچھے چلتا اور سفر و حضر میں اس طرح آپ کے ہمراہ رہتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ رسول اللہ(ص) ہر روز اپنے اخلاق کا کوئی نمونہ میرے لئے بیان کرتے اور مجھے اس کی پیروی کا حکم دیتے تھے، ہر سال غار حراء میں خلوت اختیار کرتے تھے تو صرف میں آپ کو دیکھ سکتا تھا اور میرے سوا کوئی آپ سے مل نہیں سکتا تھا۔ جس زمانے میں ـ سوائے اس گھر کے جس میں رسول اللہ(ص) اور خدیجہ کبری تھے ـ اسلام و ایمان کسی گھر میں داخل نہيں ہوا تھا ـ میں ان کے درمیان تیسرا فرد تھا، وحی اور نبوت کی روشنی کو دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو کو محسوس کرتا تھا۔ جب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی، میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ(ص) یہ کیسی آواز ہے؟ فرمایا: یہ شیطان ہے جو اس بات سے خوفزدہ ہے کہ لوگ اب اس کی پرستش چھوڑ دیں گے؛ بے شک تم وہی سنتے ہو جو میں سنتا اور تم وہی دیکھتے ہو جو میں دیکھتا ہوں بس فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو۔ بلکہ تم میرے وزیر ہو اور خیر کی راہ پر گامزن اور مؤمنین کے امیر ہو”۔(19) چنانچہ یہ ایک عام منتقلی نہ تھی بلکہ گویا کہ علی(ع) کی اپنے گھر منتقلی رسول اللہ(ص) کے الہی مشن کا تقاضا تھی اور آنحضرت(ص) علی(ع) کے عظیم ترین مربی و معلم تھے اور جس طرح کہ آپ(ص) امانت و صداقت کے حوالے سے مشہور تھے علی(ع) بھی صدق و امانتداری میں آپ کی قدم بقدم پیروی کرتے تھے؛ عصر جاہلیت کی اوہام پرستی اور بت پرستی سے کبھی متأثر نہيں ہوئے؛ کبھی بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہيں ہوئے اور سب سے پہلے مرد تھے جو رسول اللہ(ص) پر ایمان لائے اور آپ کے نجات بخش پیغام و دعوت پر لبیک کہا۔(20)
اگر کوئی کہے کہ آپ کا اسلام اور ایمان بچپنے کی حالت میں تھا تو یہ درحقیقت رسول اللہ(ص) کی تنقیص ہے کیونکہ آپ نے نہ صرف آپ کا ایمان و اسلام قبول کیا بلکہ دعوت ذوالعشیرہ میں بنو عبدالمطلب کے دعوت شدہ مردوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:’’إنّ ھذا أخي و وصيّي وخليفتي فيكم، فاسمعوا لہ و أطيعوا‘‘۔یقیناً یہ میرا بھائی اور وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ و جانشین ہے پس اس کی بات سنو اور اطاعت کرو)۔(21) یوں پیغمبر اکرم(ص) نے آپ کے ایمان کو تسلیم کیا اور اس کی بنیاد پر آپ کو اپنا بھائی، وزیر، خلیفہ اور وصی قرار دیا جبکہ دوسرے مسلمانوں کے اسلام پر انہیں ایسے کسی عہدے سے نہيں نوازا گیا چنانچہ آپ کا ایمان سب پر بھاری تھا جس کا ثبوت رسول اللہ(ص) کا مذکورہ کلام ہے۔
جسمانی اوصاف
حضرت علی علیہ السلام کا قد درمیانہ تھا اور تقریباً فربہ جسم، سیاہ اور کھلی آنکھوں کے مالک تھے۔ آپ کی نگاہ میں شفقت اور مہربانی موجزن تھی۔ آپ کے ابرو کمان کی مانند کھنچے اور ملے ہوئے تھے۔ آپ کا چہرہ انتہائی خوبصورت اور دلکش تھا اور حسین ترین مردوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کے چہرے کی رنگت گندمی تھی اور آپ کا چہرہ کھلا اور بشاش تھا۔ آپ کے سر کے اطراف میں بال تھے تاہم سر کے اوپر کے حصے پر بال نہ تھے۔ آپ کی گردن کی سفیدی کی یہ کیفیت تھی کہ چاندی کی صراحی کی طرح چمکتی تھی۔ آپ کی داڑھی گھنی اور خوبصورت تھی۔ آپ کے کندھے شیر کی طرح چوڑے تھے اور انگلیاں باریک اور کلائیاں اور ہاتھ بہت زيادہ پر قوت تھے۔ اس قدر قوی تھے کہ اگر کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے تو اس پر قابو پالیتے تھے اور فریق مقابل سانس لینے کی قوت تک کھو دیتا تھا۔ آپ کا شکم مبارک ابھرا ہوا اور آپ کی پیٹھ نہایت مضبوط تھی اور سینہ چوڑا اور بالوں سے اٹا ہوا تھا۔ آپ کی ہڈیاں،جن کے سرے جوڑوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے تھے، بڑے معلوم ہوتے تھے۔ آپ کے پٹھے پیچ در پیچ تھے اور ٹانگیں لمبی اور باریک تھیں۔ آپ کے ہاتھوں اور پیروں کے پٹھے بڑے اور موزون تھے۔ اور راہ چلتے وقت آگے کی طرف مائل نظر آتے تھے۔(22)
جسمانی قوت
بعض منابع کے مطابق رسول اللہ نے انہیں بطین کے لقب سے نوازا اسی وجہ سے بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ امام علی جسمانی لحاظ سے موٹاپے کی طرف مایل تھے لیکن بعض نے اس بطین سے البطین من العلم(یعنی علم سے بھرا ہوا) مراد لیا ہے ۔دیگر اور قرائن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں ان میں سے بعض زیارتوں میں حضرت علی علیہ السلام کو بطین کی صفت سے یاد کیا گیا ہے۔(23)
ابن قتیبہ لکھتا ہے: امام علیؑ جس کسی کے ساتھ بھی لڑے اس کو زمین پر دے مارا۔(24)
ابن ابی الحدید کہتا ہے: امام علی علیہ السلام کی جسمانی قوت ضرب المثل میں بدل گئی ہے۔ آپ ہی تھے جنہوں نے در خیبر اکھاڑا اور ایک جماعت نے وہ دروازہ دوبارہ لگانے کی کوشش کی لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے ہبَل نامی بت کو ـ جو حقیقتاً بڑا بت تھا ـ کعبہ کے اوپر سے زمین پر دے مارا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک بہت بڑی چٹان کو اکھاڑ دیا اور اس کے نیچے سے پانی ابل پڑا، جبکہ آپ کے لشکر میں شامل تمام افراد مل کر بھی اس کو ہلانے میں ناکام ہوچکے تھے۔(25)
ازواج
امام علی علیہ السلام کی پہلی زوجہ مکرمہ رسول اللہ(ص) کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراء(س) تھیں۔(26) علی(ع) سے پہلے ابوبکر ، عمر بن خطاب اور عبد الرحمن بن عوف نے بنت رسول(ص) کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تاہم رسول اللہ(ص) نے فرمایا:”میں زہراء(س) کی شادی کے بارے میں وحی الہی کا منتظر ہوں”۔(27)
حضرت فاطمہ کے ساتھ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی شادی کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے: بعض کا کہنا ہے کہ یہ شادی سن 2 ہجری ذی الحجہ کی پہلی تاریخ کو ہوئی(28)، بعض کے مطابق شوال کو ہوئی اور بعض دیگر نے 21 محرم کو اس آسمانی شادی کی تاریخ قرار دیا ہے۔(29)
حضرت فاطمہ زہرا(س) کی شہادت کے بعد امیرالمؤمنین(ع) نے امامہ بنت ابی العاص بن ربیع بن عبدالعزی بن عبدشمس کے ساتھ شادی کی۔
ام البنین فاطمہ بنت حزام بن دارم کلابیہ، دوسری خاتون تھیں جو امیرالمؤمنین(ع) کے حبالہ نکاح میں آئیں اور حضرت عباس(ع) عثمان، جعفر اور عبد اللہ اسی باعظمت خاتون سے دنیا میں آئے اور سب کربلا میں شہید ہوئے۔
ام البنین کے بعد آپ نے لیلا بنت مسعود بن خالد ہھشلیہ تمیمیہ دارمیہ سے شادی کی۔
اس کے بعد آپ نے اسماء بنت عمیس خثعمیہ کے ساتھ شادی کرلی۔علی(ع) کی ایک زوجہ مکرمہ ام حبیب بنت ربیعہ تغلبیہ ہیں جو “الصہبا” کے نام سے مشہور ہیں۔خولہ بنت جعفر بن قیس بن مسلمہ الحنفی اور دوسرے قول کے مطابق خولہ بنت ایاس بھی ان خواتین میں سے ہیں جو امیرالمؤمنین کے حبالہ عقد میں آئیں اور محمد بن حنفیہ بن علی(ع) ان ہی کے فرزند ہیں۔
نیز علی علیہ السلام کی دوسری زوجات میں ام سعید بنت عروہ بن مسعود ثقفی اور مُحیّاة بنت إمرؤ القیس بن عدی کلبی بھی شامل ہیں۔(30)
اولاد
حضرت علی علیہ السلام کے حضرت زہرا(س) سے پانچ اولاد ہیں: امام حسن، امام حسین، محسن(31) حضرت زینب کبری اور ام کلثوم۔
شیخ مفید نے امام علی علیہ السلام کی اولاد کی تعداد 27 تک بیان کی ہے گوکہ بعض شیعہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت زہرا(س) سے آپ کے ایک اور فرزند “محسن” تھے جو پیدائش سے قبل اور رسول اللہ(ص) کے وصال کے بعد ساقط ہو گئے تھے۔ اور اس حساب سے امیرالمؤمنین(ع) کی اولاد کی تعداد 28 تھی:
1۔حسن2۔ حسین3۔ محسن 4۔ محمد (ابوالقاسم) 5۔ عمر 6۔ عباس 7۔ جعفر8۔ عثمان9۔ عبداللہ10۔ محمد اصغر11۔
عبیداللہ 12۔ یحیی 13۔ ام الحسن14۔ رملہ15زینب کبری 16۔زینب صغری17۔رقیہ 18۔ نفیسہ 19۔ زینب صغری 20۔ رقیہ صغری 21۔ ام ہانی 22۔ امالکرام 23۔ جمانہ(انکی کنیت ام جعفر تھی)۔ 24۔ امامہ 25۔ ام سلمہ 26۔ میمونہ 27۔ خدیجہ، 28۔ فاطمہ۔(32)
امام علی(ع) کے اخلاقی خصوصیات
سخاوت و فیاضی
نہج البلاغہ کے شارح اور اہل سنت کے مشہور عالم ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں: امام علی(ع) کی فیاضی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ روزہ رکھتے تو اپنا افطار محتاجوں کو دے دیتے۔ آیت کریمہ: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّہ ِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراً۔(33) اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت کے ساتھ ساتھ غریب محتاج اور یتیم اور جنگ کے قیدی کو)(34)۔ آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اگر کسی دن علی(ع) کے پاس صرف چار درہم ہوتے تو ایک درہم رات کو، ایک دن کو اور تیسرا درہم خفیہ طور پر اور ایک اعلانیہ بطور صدقہ کردیتے تھے اور آیت کریمہ: الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَہُم بِاللَّيْلِ وَالنَّہَارِ سِرّاً وَعَلاَنِيَةً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلاَ ہُمْ يَحْزَنُونَ۔(35) وہ جو اپنے اموال رات اور دن میں، خفیہ اور اعلانیہ خیرات میں دیتے ہیں، ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے پروردگار کے یہاں اور انہیں کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ افسوس ہوگا)۔(36) مروی ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مدینہ کے یہودیوں کے نخلستان کی آبیاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے ہاتھوں میں گٹھے پڑے گئے تھے اور اجرت لے کر صدقہ دیا کرتے تھے اور خود بھوکے رہتے تھے۔ مروی ہے کہ آپ نے کبھی بھی کسی سائل کو “نہ” نہیں کہا۔
عفو و حلم
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: امام علی(ع) حلم و درگذر اور مجرموں سے چشم پوشی کے حوالے سے سب سے زیادہ صاحب حلم و بخشش تھے، چنانچہ واقعۂ جمل اس مدعا کی بہترین دلیل ہے۔ جب آپ نے اپنے معاند ترین دشمن مروان بن حکم پر قابو پالیا تو اس کو رہا کردیا اور اس کے عظیم جرم سے چشم پوشی کی۔ عبداللہ بن زبیر اعلانیہ امام(ع) کی بدگوئی کرتا تھا اور جب عبداللہ عائشہ کے سپاہ کے ہمراہ بصرہ آیا تو اس نے خطبہ دیا اور خطبے کے دوران جو بھی وہ کہہ سکا کہہ گیا حتی کہ اس نے کہا:”اب لوگوں میں ادنی ترین اور پست ترین انسان علی بن ابی طالب تمہارے شہر میں آرہا ہے”۔ لیکن جب علی(ع) نے اس پر قابو پایا تو اسے چھوڑ دیا اور صرف یہ کہنے پر اکتفاء کیا کہ:’’میرے سامنے سے اتنا دور چلا جا کہ میں دوبارہ تیری شکل نہ دیکھوں”۔ نیز جنگ جمل کے بعد آپ نے مکہ معظمہ میں اپنے دشمن سعید بن عاص پر قابو پالیا لیکن اس سے نظریں موڑ لیں اور اس سے کچھ بھی نہ کہا۔
جنگ جمل کے بعد عائشہ کے ساتھ آپ کا برتاؤ مشہور ہے۔ جب جنگ جمل میں سپاہ عائشہ کو ہار ہوئی اور آپ فاتح ہوئے تو ان کی تکریم کی اور جب عائشہ نے مدینہ واپس جانا چاہا تو آپ نے قبیلہ عبد قیس کی مردانہ لباس میں ملبوس اور تلواروں سے لیس بیس خواتین کو اس کے ہمراہ روانہ کیا۔ عائشہ سفر کے دوران مسلسل اعتراض کرتی رہی اور علی(ع) کو برا بھلا کہتی رہیں کہ:”آپ نے اپنے اصحاب میں سے مردوں کو میرے ساتھ بھجوایا ہے اور میری حرمت شکنی کی ہے” لیکن جب یہ قافلہ مدینہ پہنچا تو خواتین نے عائشہ سے کہا: دیکھو ہم سب عورتیں ہیں اور ہم ہی سفر میں تمہارے ساتھ تھیں”۔
صفین کے مقام پر معاویہ کی سپاہ نے امام(ع) کے لشکر کا پانی بند کیا اور شریعۂ فرات اور آپ کے لشکر کے درمیان حائل ہوا اور لشکر معاویہ کے سالار کہتے تھے کہ: ہمیں علی کے لشکر کو پیاس کی حالت میں تہہ تیغ کرنا پڑے گا جیسا کہ انھوں نے عثمان کو پیاسا قتل کیا تھا!۔ اس کے بعد علی(ع) کی سپاہ نے لڑکر دریا اور پانی کو ان سے واپس لے لیا۔ یہاں امام(ع) کی سپاہ میں بھی بعض لوگوں نے تجویز دی کہ “بہتر ہے کہ ہم پانی کا ایک قطرہ بھی سپاہ معاویہ تک نہ پہنچنے دیں تاکہ جنگ کی مشقت برداشت کئے بغیر، وہ پیاس کی شدت سے مر جائیں۔ امام(ع) نے فرمایا: ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے۔ دریا کے ایک حصہ سے انہيں پانی بھرنے دو۔(37)
نفاست و خوش طبعی
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: امام علی(ع) ہشاش بشاش اور و خوش طبیعی کے لحاظ سے ضرب المثل تھے؛ چنانچہ آپ کے دشمن اس صفت کو آپ کے لئے عیب قرار دیتے تھے۔ صعصعہ بن صوحان اور دیگر اصحاب نے آپ(ع) کے بارے میں کہا: “علی ہمارے درمیان ہم جیسے ایک تھے اور اپنے لئے کسی امتیازی حیثیت کے قائل نہيں تھے لیکن اپنی منکسرالمزاجی اور ملنساری میں اس قدر صاحب رعب و ہیبت تھے کہ ہم آپ کے حضور شمشیر بدست شخص کے سامنے ہاتھ پاؤں بندھے قیدیوں کی مانند تھے۔(38)
جہاد فی سبیل اللہ
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: دوست اور دشمن کا اقرار ہے کہ آپ مجاہدین کے آقا اور سید و سرور ہیں اور کوئی بھی آپ کے مقابلے میں اس عنوان کا لائق نہیں ہے اور سب جانتے ہیں کہ اسلام کی دشوار ترین اور شدیدترین جنگ، جنگ بدر تھی۔ جس میں ستر مشرکین ہلاک ہوئے اور 35 سے زائد علی(ع) کے ہاتھوں مارے گئے اور نصف کے قریب مشرکوں کو دوسرے مسلمانوں نے فرشتوں کی مدد سے ہلاک کر ڈالا۔ احد، احزاب (یا خندق)، خیبر، حنین اور دوسرے غزوات میں آپ کا کردار تاریخ کے ماتھے پر جھلک رہا ہے جس کو بیان کی ضرورت نہيں ہے اور واضح اور بدیہی امور کی شناخت کی مانند ہے بالکل اسی طرح، جس طرح کہ ہم مکہ اور مصر وغیرہ کے بارے میں جانتے ہیں۔(39)
شجاعت
ابن ابی الحدید کہتے ہیں:آپ میدان شجاعت کے وہ یکتائے روزگار ہیں جنہوں نے گذرنے والوں کو بھلوا دیا اور آنے والوں کو اپنے وجود میں فنا کیا۔ جنگوں میں علی(ع) کا کردار کچھ اس طرح سے تاریخ میں جانا پہچانا ہے کہ لوگ قیامت تک اس کی مثالیں دیتے ہیں۔ وہ مرد دلاور جو کبھی فرار نہیں ہوئے اور دشمن کی کثرت سے مرعوب نہیں ہوئے اور کسی سے دست بگریباں نہيں ہوئے جس کو آپ نے ملک عدم کی طرف روانہ نہ کیا ہو اور کبھی ایسا وار نہ کیا کہ دوسرے وار کی ضرورت پڑے؛ اور جب آپ نے معاویہ کو جنگ کے لئے بلایا اور فرمایا کہ آؤ دو بدو لڑتے ہيں تا کہ ہم میں سے ایک مارا جائے اور مسلمانوں کو آسودگی نصیب ہو۔ عمرو بن عاص نے معاویہ سے کہا: علی نے تمہارے ساتھ انصاف کیا ہے۔ معاویہ نے کہا: جب سے تو میرے ساتھ ہے، تو نے کبھی میرے ساتھ ایسی چال نہيں چلی ہے! تو مجھے ایسے فرد سے جنگ کا حکم دیتا ہے جس کے چنگل سے آج تک کوئی زندہ نکل سکا ہے؟ میرا خیال ہے کہ تو میرے بعد حکومت شام پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔(40)
عبادت
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: علی علیہ السلام لوگوں میں عابد ترین تھے اور سب سے زیادہ نماز قائم کرتے اور روزہ رکھتے تھے۔ لوگوں نے نماز تہجد، اوراد و اذکار اور مستحب نمازوں کی پابندی آپ سے سیکھی۔ اور کیا سمجھتے ہو اس مرد کو جو مستحب نمازوں اور نوافل کے تحفظ کے اس قدر پابند تھے کہ جنگ صفین میں لیلۃ الہریر نامی رات کو دو صفوں کے درمیان ایک بچھونا آپ کے لئے بچھایا گیا تھا اور تیر دائیں اور بائیں طرف سے کانوں کے ساتھ سرسراہٹ کے ساتھ گذرتے تھے اور آپ کسی خوف و خطر کے بغیر نماز میں مصروف تھے۔ آپ کی پیشانی کثرت سجود کی وجہ سے اونٹ کی گھٹنے کی مانند تھی؛ جو بھی آپ کی دعاؤں اور مناجاتوں کا بغور جائزہ لے، اور خداوند سبحان کی تعظیم اور بزرگی اور اس کی ہیبت کے سامنے خضوع و خاکساری اور اس کی عزت کے سامنے خشوع کو دیکھے وہ آپ کے کلام میں چھپے ہوئے خلوص کا اندازہ لگا سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ یہ کلام کس طرح کے دل سے جاری ہوا ہے اور کس زبان پر جاری ہوا ہے۔(41)
زہد
علی علیہ السلام زاہدوں کے سردار تھے اور جو بھی اس راہ پر گامزن ہنا چاہتا علی(ع) کو مدنظر رکھتا۔ علی(ع) نے کبھی کھانے سے اپنا پیٹ نہيں بھرا، آپ کا کھانا سخت ترین اور آپ کا لباس نہایت کھردرا ہوتا تھا۔ عبداللہ بن ابی رافع کہتے ہیں: میں عید کے دن علی(ع) سے ملا تو میں نے ایک سر بمہر تھیلا آپ کے قریب دیکھا؛ آپ نے اس کو کھولا تو میں نے دیکھا کہ چوکر بھرے جو کے آٹے سے تیار کردہ روٹی کے ٹکڑے ہیں۔ آپ نے کھانا شروع کیا۔ میں نے کہا: یا امیرالمؤمنین! آپ نے اس تھیلے کو سربمہر کیوں کیا ہے؟ فرمایا: مجھے خوف ہوتا ہے کہ میرے بچے کہیں ان ٹکڑوں کو چربی یا روغن زیتون لگا دیں!
آپ کا لباس کبھی کھجوروں کے ریشوں اور کبھی کھال کا پیوند لگا ہوتا تھا۔ آپ کے جوتے ہمیشہ کھجور کے ریشوں سے بنے ہوتے تھے۔ آپ کا لباس نہایت کھردرے ٹا
کوئی تبصرہ نہیں! سب سے پہلا تبصرہ کرنے والے بنیں۔