حضرت علیؑ صدر اسلام کی درخشاں تاریخ میں اتحاد کے سب سے بڑے علَم برداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ آنحضرتؑ کی حیات طیبہ میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جو اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں کہ آپ نے ہمیشہ امت مسلمہ کے اتحاد کو ترجیح دی، یہاں تک کہ جب خلافت کا حق آپ سے چھینا گیا، تب بھی آپ نے مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار سے بچنے کے لیے صبر اور حکمت کا دامن تھامے رکھا۔ سيره پيشوايان، ص 65
دوراہے پر فیصلہ کن گھڑی
رسول اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد جب خلافت کا راستہ بدل دیا گیا، تو حضرت علیؑ ایک نہایت نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر کھڑے تھے۔ دو راستے آپ کے سامنے تھے یا تو اپنے وفادار ساتھیوں کے ساتھ طاقت کا استعمال کر کے خلافت کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے یا پھر حالات کا صبروتحمل کے ساتھ سامنا کرتے اور اپنی تمام تر توجہ مسلمانوں کی اصلاح و فلاح پر مرکوز رکھتے۔
حضرت علیؑ نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور اپنی خاموشی سے واضح کر دیا کہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی اور اختلافات کو ہوا دینا آپ کے نزدیک اقتدار سے کہیں زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔ آپ نے اپنی اس حکمت عملی کی وضاحت خطبۂ شقشقیہ میں یوں فرمائی:
میں نے خلافت کا لباس اتار پھینکا اور اس سے کنارہ کش ہو گیا، حالانکہ اس وقت میرے دل میں دو ہی سوچیں گردش کر رہی تھیں، یا تن تنہا میدان میں اتر کر اپنے حق کے لیے جنگ کروں یا صبر و تحمل سے کام لوں اور حالات کو سنوارنے کی کوشش کروں، بالآخر میں نے صبر کو عقل کے قریب تر پایا۔نہج البلاغہ، خطبہ 3
حضرت علیؑ کے صبر و سکوت کی وجوہات
اگر حضرت علیؑ خلافت کے لیے تلوار اٹھاتے، تو اسلامی معاشرہ شدید خطرات سے دوچار ہو جاتا۔ چند اہم وجوہات:
- اگر حضرت علیؑ قیام فرماتے، تو نہ صرف آپ کے جانثار ساتھی بڑی تعداد میں شہید ہو جاتے، بلکہ وہ صحابہ بھی قتل ہو جاتے جو اگرچہ آپ کی خلافت کے حق میں نہ تھے، لیکن اسلام کے دفاع میں اہم کردار ادا کر سکتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ مسلمانوں کی مجموعی قوت کمزور ہو جاتی اور کفار و مشرکین کو موقع مل جاتا کہ وہ اسلام کے خلاف سازشیں کریں۔
- نبی کریم ﷺ کے بعد، وہ قبائل جو محض چند سال قبل اسلام میں داخل ہوئے تھے، ابھی اس کی حقیقی تعلیمات سے کماحقہ آگاہ نہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد، ان میں سے بہت سے قبائل نے ارتداد کا اعلان کر دیا اور دوبارہ بت پرستی کی طرف مائل ہونے لگے۔ ایسے میں اگر مدینہ میں داخلی اختلافات جنم لیتے، تو مرتدین کو مزید شہ ملتی اور اسلامی حکومت کمزور پڑ جاتی۔
- مدعیان نبوت جیسے مسیلمہ کذاب، طلیحہ اور سجاح، جو جھوٹے نبی ہونے کے دعوے دار تھے، میدان میں آ چکے تھے۔ ان کے پیروکاروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی اور وہ مدینہ پر حملہ کرنے کے درپے تھے۔ ایسے وقت میں حضرت علیؑ اگر خلافت کے مسئلے پر جنگ چھیڑ دیتے، تو دشمنان اسلام کو ایک نیا موقع مل جاتا کہ وہ اس انتشار سے فائدہ اٹھا کر اسلام کی بنیادوں کو کمزور کر دیں۔
- رومی سلطنت، جو اس وقت کی سب سے بڑی غیر مسلم طاقت تھی، مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا خطرہ سمجھتی تھی۔ اسلام اور روم کے درمیان پہلے ہی تین جنگیں ہو چکی تھیں اور رومی اس تاک میں تھے کہ مسلمانوں میں کوئی داخلی کمزوری پیدا ہو تو وہ عرب پر چڑھائی کر دیں۔ اگر حضرت علیؑ خلافت کے لیے تلوار اٹھاتے، تو اسلامی اتحاد مزید کمزور ہو جاتا اور روم کے لیے حملے کا سنہرا موقع فراہم ہو جاتا۔سيره پيشوايان، از ص 67 ـ 71
یہ تمام عوامل اس بات کا تقاضا کر رہے تھے کہ حضرت علیؑ صبر سے کام لیں اور امت کی وحدت کو ہر قیمت پر محفوظ رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے حق سے چشم پوشی کرتے ہوئے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کو مقدم رکھا اور امت کو تفرقے میں پڑنے سے بچا لیا۔
یہ حکمت عملی صرف ایک سیاسی مصلحت نہ تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا عملی اظہار تھی، جو اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ حضرت علیؑ کی نظر میں اقتدار سے زیادہ اہم دین اسلام کی بقا اور وحدت مسلمین کی حفاظت تھی۔
حضرت علی علیہ السلام کا خلفائے مسلمین سے تعاون - امام علی علیہ السلام اور خلفا ءکے علمی و سیاسی مسائل کا حل
تاریخ گواہ ہے کہ خلافت ابوبکر و عمر کے دوران، دونوں خلفاء سیاسی معاملات، اسلامی عقائد و معارف، تفسیر قرآن، فقہ اور احکام دین کے سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام سے رجوع کرتے اور آپ کی بصیرت و رہنمائی سے بھرپور استفادہ کرتے تھے۔
مثال کے طور پر جب ابوبکر کو رومیوں کے خلاف جنگ کے بارے میں تذبذب لاحق ہوا،جو کہ رسول خدا ﷺ کی آخری ہدایات میں شامل تھی،تو انہوں نے صحابہ سے مشورہ کیا، مگر کسی کی رائے انہیں مطمئن نہ کر سکی۔ بالآخر، حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ کیا۔ امام نے انہیں نبی کریم ﷺ کے فرمان کی تعمیل پر ابھارا اور فرمایا: اگر تم جنگ کرو گے تو کامیاب رہو گے۔ ابوبکر، امام کی حوصلہ افزا بات سن کر خوش ہوئے اور کہا: یہ نیك شگون اور خیر کی بشارت ہے۔تاريخ يعقوبی، ج 3، ص 39
اسی طرح، جب عمر کو خبر ملی کہ ایرانی لشکر، فوجِ اسلام پر حملے کے لیے تیاری کر رہا ہے، تو وہ تذبذب میں مبتلا ہو گئے کہ آیا مدینہ چھوڑ کر پہلے حملہ آوروں کو مرعوب کریں یا مدینہ میں رہ کر دفاعی حکمت عملی اختیار کریں۔ صحابہ سے مشورہ کیا، تو بعض نے مدینہ چھوڑنے کی ترغیب دی۔ مگر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:فتح و شکست کا دار و مدار محض تعداد کی کمی بیشی پر نہیں، بلکہ یہ دین خدا ہے، جسے وہ خود سربلند رکھے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کل ایرانیوں کی نظر تم پر پڑی، تو وہ کہیں گے، یہی عربوں کا اصل سہارا ہے، اگر اس جڑ کو کاٹ دیا جائے تو ہم سکون پا جائیں گے، یہ سوچ انہیں تمہارے خلاف زیادہ جری اور تمہارے خاتمے کے لیے حریص بنا دے گی۔ عمر، حضرت امام علیؑ کے اس مشورے کو پسند کرتے ہوئے اپنے پہلے ارادے سے باز آ گئے۔ابن اثير، الكامل فى التاريخ،ج 3، ص 8.
یہی حکمت و بصیرت تھی کہ عمر اکثر کہتے:میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ کوئی مشکل درپیش آئے اور ابوالحسن (علیؑ) ہمارے درمیان موجود نہ ہوں۔ الاصابة فى تمييز الصحابه، ج 2، ص 509 - مختلف اقوام کے علماء کے سوالات کے جوابات
رسول اکرم ﷺ کے وصال کے بعد، مختلف اقوام کے علماء، خصوصاً یہودی اور عیسائی دانشور، مدینے آتے اور اسلام کے بارے میں تحقیق کے لیے سوالات اٹھاتے۔ مگر ان کے تسلی بخش جوابات دینے والا کوئی نہ ہوتا، سوائے حضرت علی علیہ السلام کے، جن کی توریت و انجیل پر گہری نظر ان کے خطبات سے عیاں تھی۔ اگر یہ علمی خلا،امام کے ذریعے پر نہ ہوتا، تو امت مسلمہ کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ لیکن جب امامؑ نے ان کے تمام سوالات کے نہایت مستحکم اور قاطع جوابات دئے، تو خلفاء کے چہروں پرجو نبی کریم ﷺ کے بعد حکومتی منصب پر فائز تھے،خوشی اور حیرت کے آثار نمایاں ہو گئے۔سيره پيشوايان، ص 71 - فقہی و قضائی مسائل کا حل
نئے پیش آنے والے شرعی مسائل، جن کی مثال سابقہ اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی تھی یا پیچیدہ تنازعات، جن کا فیصلہ قاضی کرنے سے قاصر ہوتے، یہ سب وہ اہم معاملات تھے جن میں حضرت علیؑ نے خلفاء کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ خصوصاً دور خلافت فاروقی میں، سب سے بڑے مرجع فتویٰ کی حیثیت رکھتے تھے۔سبحانى، فروغ ولايت،ص 286
تاریخ و حدیث کی کتابوں میں امامؑ کے عدالتی فیصلے اور ان میں قرآنی آیات کے تخلیقی اور بلیغ استعمال کی بے شمار مثالیں محفوظ ہیں، جو آپ کے غیرمعمولی فقہی و قانونی فہم کی شہادت دیتی ہیں۔ - سماجی، زرعی اور عوامی بہبود کے امور
حضرت علی علیہ السلام نے خلفا کی علمی معاونت اور اہم حکومتی فیصلوں میں شرکت کے ساتھ ساتھ، عوامی بھلائی کے بے شمار کام بھی انجام دیے۔ آپ نے حکومتی حساسیت اور عہدے داروں کے خدشات کو ابھارنے کے بجائے ایسے سماجی خدمات سرانجام دیں، جن کی نظیر تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
یتیموں اور فقیروں کی دستگیری، غلاموں کی آزادی، زراعت اور باغبانی کی ترویج، کنویں کھدوانا، مساجد کی تعمیر اور غریبوں کی کفالت کے لیے جائدادوں اور املاک کا وقف، ان خدمات میں شامل تھا۔فروغ ولايت، ص 296 ـ 298
ان تمام امور کے باوجود، تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نظر نہیں آتا، جو حضرت علی علیہ السلام اور خلفاء کے درمیان کسی شدید نزاع، اختلاف یا ٹکراؤ کی نشاندہی کرے۔رسول جعفريان، تاريخ سياسى اسلام تاريخ خلفاء،ص 203
پیغام:
حضرت علیؑ کی سیرت مسلمانوں کو اتحاد، حکمت اور ایثار کا درس دیتی ہے۔ آپؑ نے امت کی وحدت کو مقدم رکھا، علمی و فقہی رہنمائی فراہم کی اور خدمت خلق کو اپنا مشن بنایا۔ اقتدار کے بجائے دین اور ملت کی بقا کو ترجیح دی، اختلافات کے باوجود امت کو کمزور ہونے سے بچایا اور ثابت کیا کہ حقیقی قیادت بصیرت، صبر اور عوامی بھلائی میں ہے۔ آج بھی ہمیں انہی اصولوں پر چلتے ہوئے اتحاد، دانشمندی اور خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنانا چاہیے۔
کوئی تبصرہ نہیں! سب سے پہلا تبصرہ کرنے والے بنیں۔