انسان کی تخلیق ایسا نازک اور عمیق موضوع ہے جس کی تہہ تک رسائی اسی وقت ممکن ہے جب انسان خود اپنی حقیقت، وجود کے سربستہ رازوں اور خالق کائنات سے اپنے تعلق کی لطیف ترین سطحوں کو شعوری طور پر سمجھنے کی سعی کرے۔ یہی وہ نقطۂ آغاز ہے جس کی روشنی میں ہم نے انسانی ساخت کو سمجھنے کے لیے نہج البلاغہ کی طرف رجوع کیا، تاکہ حضرت علیؑ کے کلام کے آئینے میں حقیقت آفرینش کے کچھ پرت وا کیے جا سکیں۔
مادی تشکیل
نہج البلاغہ کے خطبۂ اول میں حضرت علیؑ، نظام ہستی، آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر سیر حاصل گفتگو کے بعد انسان کی پیدائش کا ذکر کرتے ہیں۔ آپؑ انسان کی ابتدا کو اس کی مادی بنیاد سے جوڑتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کی اصل خاک ہے،وہ خاک جو زمین کے مختلف حصوں سے جمع کی گئی، کہیں نرم، کہیں سخت، کہیں شیریں اور کہیں شور زدہ۔
یہ آمیزش محض مٹی کا ایک مجموعہ نہیں، بلکہ ایک متنوع فطرت کا خمیر ہے، جو انسان کے مزاج، ذہنی رویّے، جسمانی ساخت اور باطنی کیفیتوں کی تشکیل کرتا ہے۔ یہی خاک انسان کی انفرادی شناخت اور اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کی بنیاد ہے۔
امیرالمؤمنینؑ اس مرحلۂ آفرینش کو نہایت دلنشیں اور جامع انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:
ثُمَّ جَمَعَ سُبْحَانَهُ مِنْ حَزْنِ الْأَرْضِ وَ سَهْلِهَا وَ عَذْبِهَا وَ سَبَخِهَا تُرْبَةً سَنَّهَا بِالْمَاءِ حَتَّى خَلَصَتْ وَ لَاطَهَا بِالْبِلَّةِ حَتَّى لَزَبَتْ فَجَبَلَ مِنْهَا صُورَةً ذَاتَ أَحْنَاءٍ وَ وُصُولٍ وَ أَعْضَاءٍ وَ فُصُولٍ أَجْمَدَهَا حَتَّى اسْتَمْسَکَتْ وَ أَصْلَدَهَا حَتَّى صَلْصَلَتْ لِوَقْتٍ مَعْدُودٍ وَ أَمَدٍ مَعْلُومٍ
پھر اس پاک ذات نے زمین کے بلند و پست، شیریں و شور آلود طبقات سے مٹی کو جمع کیا، اسے پانی سے گوندھا، یہاں تک کہ وہ خالص گل بن گئی، پھر اسے مزید تر کر کے چپکنے والی صورت میں ڈھالا۔ اس کے بعد اسی گل سے ایک ایسا پیکر تراشا جو خمیدگی، جوڑوں، اعضا اور مفاصل پر مشتمل تھا۔ پھر اسے اتنی دیر تک سکھایا کہ وہ سخت ہو گیا اور اس قدر خشک کیا کہ وہ بجنے لگا۔ یہ سب ایک مقررہ وقت اور طے شدہ مدّت کے تحت انجام پایا۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 1
ایک نہایت قابل توجہ نکتہ جو ان عبارات میں موجود ہے، یہ ہے کہ ان کے ذریعے قرآن کریم میں انسان کی تخلیق سے متعلق مختلف تعبیرات کو نہ صرف بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے بلکہ ان کے درمیان گہرا ربط بھی واضح ہوتا ہے۔ قرآن مجید کہیں انسان کی پیدائش کا آغاز “زمین” سے بتاتا ہے، کہیں “مٹی” سے، کہیں “گارے” سے، کہیں “پانی” سے، کہیں “خشک گارے” سے اور کہیں “چپکنے والے گارے” یا “گارے کے جوہر” سے۔
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا یہ بصیرت افروز بیان اس حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے کہ قرآن میں ان مختلف تعبیرات کا مقصد دراصل انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کو نمایاں کرنا ہے، نہ کہ ایک دوسرے سے متضاد اقوال پیش کرنا۔
اسی بنیاد پر ان آیات کو آپس میں مربوط کیا جا سکتا ہے: جب زمین کی مٹی کو پانی سے گوندھ کر چپکنے والا گارا بنایا جاتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ یہی گارا سیاہ اور بدبودار ہو جاتا ہے اور پھر وہ خشک ہو کر “صلصال” یعنی ایسا خشک گارا بن جاتا ہے جو بجنے لگتا ہے۔
اسی مخصوص گارے سے تخلیق کے ایک ابتدائی مرحلے میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور پھر ان سے نسل انسانی کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد تخلیق کا سلسلہ نئے طریقے سے آگے بڑھا: پہلے مرحلے میں مرد کے نطفے نے وجود پایا، پھر وہ عورت کے اندر موجود بیج سے مل کر ایک مرکب وجود میں تبدیل ہوا، جو خون کی طرح ایک لوتھڑے کی صورت اختیار کرتا ہے اور یوں تدریجی مراحل طے کرتے ہوئے آخرکار انسان کی مکمل ساخت معرض وجود میں آتی ہے۔
پس، قرآن مجید میں انسان کی خلقت سے متعلق یہ مختلف تعبیرات درحقیقت ایک ہی حقیقت کے مختلف زاویہ اور مراحل کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ ایک حسین ہم آہنگی اور تدریجی ارتقا کا لطیف بیان موجود ہے۔
انسان کی تخلیق میں ماورائے مادّہ جہت
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے انسان کی تخلیق کی تفصیل بیان کرتے ہوئے، جسم کی ساخت اور بدن کی تکمیل کے بعد تخلیق روح پر توجہ مرکوز کی اور ارشاد فرمایا:
ثُمَّ نَفَخَ فِیهَا مِنْ رُوحِهِ فَمَثُلَتْ إِنْسَانًا
یعنی کہ: پھر اس نے اپنی پیدا کردہ روح میں سے اس جسم میں پھونک دی اور وہ ایک جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ سجدہ، آیت 9
یہ بیان، جسے امیرالمؤمنین علیہ السلام نے انسان کی خلقت کے ماورائے مادّہ پہلو کے اظہار کے لیے اختیار فرمایا، اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ روح، محض ایک کیفیت یا حالت نہیں، بلکہ ایک مستقل اور غیر مادی حقیقت ہے،ایسا وجود جو اگرچہ بدن سے وابستہ ہے، مگر اپنی ذات میں بدن سے بالاتر اور برتر ہے۔
روح، کسی ایسی کیفیت کی مانند نہیں جو کسی جسم پر قائم ہو اور اس کے زوال کے ساتھ خود بھی معدوم ہو جائے۔ بلکہ یہ ایک ماورائی جوہر ہے جو انسانی ہستی کو شعور، ارادہ اور زندگی کی حقیقی معنویت عطا کرتا ہے۔ بدن کی تخلیق تو مادی عناصر سے ہوئی، مگر انسان کی انسانیت کا اصل اسی روح سے وابستہ ہے جو امر ربّی سے پھونکی گئی۔
روح کی پیدائش کا وقت اور کیفیت
روح کی پیدائش کی نوعیت اور اس کا بدن سے تعلق، معرفت نفس کے دائرہ میں ہمیشہ سے فلسفیوں اور دانشوروں کی بحث کا موضوع رہا ہے۔ ان مباحث میں مختلف آراء ملتی ہیں، جو انسان کی روحانی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش میں گہرے فکری تجزیوں کا حصہ ہیں۔ ان میں سے چند اہم آراء پر روشنی ڈالی جاتی ہے:
جسم کی تخلیق سے قبل
بعض مفکرین کا خیال ہے کہ روح بدن کی تخلیق سے قبل عالم لاہوت میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب جسم تخلیق ہوتا ہے، تو روح اس عالم سے دنیا میں آ کر بدن کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ ایک مدت گزرنے کے بعد، جب اس کا جسمانی وجود ختم ہو جاتا ہے، تو روح اپنے اصل مقام پر واپس لوٹ جاتی ہے۔
جسم کی تخلیق کے بعد
کچھ مفکرین کے نزدیک، روح اور بدن کی تخلیق ہم وقت ہوتی ہے، لیکن ان کے درمیان کوئی علی و معلولی تعلق نہیں پایا جاتا۔ بدن، روح کا صرف آلہ اور مملکت بن جاتا ہے، لیکن یہاں روح کے بدن میں حلول کرنے کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ اس بات کے تحت، روح اور بدن کا تعلق صرف اس حد تک ہوتا ہے کہ روح بدن کے ذریعہ ادراک حاصل کرتی ہے اور بدن، روح کے اثر سے متاثر ہوتا ہے۔ ابن سینا، النجاة من الغرق فی بحر الضلال، صفحہ 781
روح کی اعلیٰ حقیقت
بعض مفکرین روح کو ایک اعلیٰ حقیقت تسلیم کرتے ہیں جو انسان کی موجودگی میں عناصر طبیعی کے تأثر سے پیدا ہوتی ہے۔ ان کے مطابق، جب روح بدن سے وابستہ ہوتی ہے، تو یہ کوئی مجرد روحانی یا عقلانی حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ محض ایک جسمانی حادثہ ہے۔ ابتدائی تخلیق کے دوران، روح عالم اجسام کی ایک شکل ہوتی ہے، مگر وقت کے ساتھ یہ آہستہ آہستہ روحانی اور آسمانی ترقی کرتی ہے۔ ملا صدرا، الحکمة المتعالیہ فی الاسفار العقلیة الأربعة، جلد 8، صفحہ 347؛ علامہ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، جلد 1، صفحہ 352
نظریات کا جائزہ اور تنقیدی مطالعہ
عقلی تجزیے کی روشنی میں، روح کی پیدائش سے متعلق پہلے دو نظریات کی بنیاد پر کوئی قطعی اور حتمی رائے قائم کرنا آسان نہیں۔ اگر روح کو ایک مجرد، مافوق مادّہ اور غیرمادی حقیقت تسلیم کیا جائے، تو یہ سوال لازمی طور پر سامنے آتا ہے کہ وہ کون سی حکمت تھی جس نے روح کو اس کے بلند و برتر مقام سے اتار کر ایک پست، مادی اور زوال پذیر عالم میں موقوف کر دیا۔ایسی دنیا میں جہاں اسے ایک مدت تک عناصر طبیعی پر مشتمل جسم کا بوجھ اٹھانا پڑے اور پھر بالآخر وہی روح اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ جائے۔ علامہ جعفری، ترجمہ و تفسیر نہج البلاغہ، جلد 2، صفحہ 135
اسی طرح منطقی طور پر بھی یہ بات قابل اشکال ہے کہ دو بالکل جداگانہ اور متضاد حقیقتیں،ایک مجرد و عقلی اور دوسری مادی و جسمانی،محض ظاہری اتصال کی بنا پر ایک واحد اکائی سمجھی جائیں اور انسان کی حقیقت ان دونوں کے مجموعے سے متحقق ہو۔ ملا صدرا، الحکمة المتعالیہ فی الاسفار العقلیة الأربعة، جلد 1، صفحہ 282
اس تصور پر ایک اور سنجیدہ اعتراض یہ ہے کہ ان نظریات کے مطابق روح ابتدا ہی سے ایک کامل و مستقل ہستی ہوتی ہے، جو اپنی تمام علمی و عملی قابلیتیں اپنے اندر رکھتی ہے۔ لہٰذا اگر اس میں فی نفسہٖ کوئی کمال موجود ہے، تو پھر جسمانی وابستگی اس کے لیے نہ بامعنی قرار دی جا سکتی ہے، نہ ہی بامقصد سمجھی جا سکتی ہے۔ کیونکہ تکامل کا تصور تبھی ممکن ہے جب کسی شے میں بالقوّہ حالت سے بالفعل کی طرف حرکت ہو اور جب ابتدا ہی سے بالفعل کمال موجود ہو، تو سیر و ارتقاء کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
اس کے برخلاف، تیسرا نظریہ ایک زیادہ معقول اور متوازن تصور پیش کرتا ہے۔ اس کے مطابق، روح کی ابتدا ایک مادی اور جسمانی حقیقت کے طور پر ہوتی ہے، جو عناصر طبیعی کے تدریجی تفاعل سے جنم لیتی ہے—جیسے بیج سے پودا نکلتا ہے اور آہستہ آہستہ درخت میں تبدیل ہوتا ہے، ویسے ہی ایک خالص مادی وجود میں ایسی استعداد مضمر ہوتی ہے جو تجرد اور ارتقاء کی راہ ہموار کرتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ وجود تدریجی مراحل طے کرتا ہوا ایسے مقام تک پہنچتا ہے جہاں وہ مادّی حدود سے بلند ہو کر ایک مستقل، مجرد اور روحانی ہستی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
یہ نظریہ نہ صرف عقلی اصولوں سے ہم آہنگ ہے، بلکہ قرآن مجید کی متعدد آیات کے ظاہری مفہوم سے بھی قریب تر دکھائی دیتا ہے۔
مثلاً سورہ مؤمنون میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ، ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً، فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً، فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا، فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا، ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ، فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ، سورہ مؤمنون، آیات 12-14
ان آیات میں انسانی تخلیق کے مادی مراحل کی تفصیل دی گئی ہے، اور پھر جملہ “ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ” اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ جب انسان کی جسمانی تشکیل مکمل ہو جاتی ہے، تو اس کے بعد ایک بالکل نئی نوعیت کی تخلیق عمل میں آتی ہے،ایسی تخلیق جو مادّی حدود سے ماورا، شعور، ارادہ، ادراک اور فہم جیسے اوصاف سے متصف ہوتی ہے۔
یہی وہ مرحلہ ہے جب انسان محض ایک مادی پیکر نہیں رہتا، بلکہ ایک باشعور، خودآگاہ اور ارادے سے معمور وجود کی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ چونکہ یہ صفات کسی خالص مادی وجود میں ممکن نہیں، اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ انسان کی روح ابتدائی طور پر مادی عناصر سے ظہور پذیر ہونے کے باوجود تدریجاً ایک مجرد، مستقل اور برتر ہستی کی صورت اختیار کرتی ہے۔ علامہ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، جلد 1، صفحہ 350
چونکہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے ارشادات قرآن مجید کے معانی کے ترجمان اور ان کے مضامین کے ہم آہنگ ہیں، لہٰذا ان کے کلام کو بھی اسی زاویے سے سمجھنا چاہیے جو تیسرے نظریے کی روشنی میں عقلی اور قرآنی دونوں بنیادوں سے قریب تر اور موزوں تر معلوم ہوتا ہے۔
تخلیق انسان كی حقیقت
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام انسان کی حقیقت آفرینش کو محض ایک مادی تشکیل یا حیاتیاتی ساخت کا نتیجہ نہیں سمجھتے، بلکہ اسے ایک بلندتر، غیرمادی اور معنوی حقیقت سے پیوستہ قرار دیتے ہیں۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں:
ثُمَّ نَفَخَ فِیهَا مِنْ رُوحِهِ فَمَثُلَتْ إِنْسَاناً
پھر اس (پیکر) میں اپنی روح میں سے پھونکا، پس وہ انسانی صورت اختیار کر گئی۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 1
اس نورانی بیان کی روشنی میں یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ انسان کی اصلی شناخت،یعنی اس کا “تمثل”اسی وقت متحقق ہوتا ہے جب مرحلۂ نفخ روح پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ گویا انسان، محض جسمانی ساخت کے باعث نہیں، بلکہ اس وقت “انسان” کہلانے کا مستحق بنتا ہے جب اس کے وجود میں وہ روح الٰہی پھونکی جاتی ہے، جو اسے شعور، فہم، ارادہ اور اخلاق جیسے اوصاف سے آراستہ کرتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں، جسم انسانی کی مادی ترکیب صرف ایک قالب یا سانچے کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ “جسم انسان” تو ہو سکتا ہے، مگر وہ اب تک اس حقیقت انسانی کا مظہر نہیں جسے ادراک، وجدان اور اختیار کی بلندیوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جب تک اس قالب میں روح کا نفخ واقع نہ ہو، وہ صرف ایک مادی وجود ہے؛ لیکن جب اس میں روح الٰہی پھونکی جاتی ہے، تو وہی قالب یکایک ایک با شعور، باادراک، مختار اور ذمہ دار ہستی بن جاتا ہے،اور یہی لمحہ اس کے “انسان” ہونے کی اصل تعریف کو متحقق کرتا ہے۔
یہی نکتہ اس قرآنی منطق کے عین مطابق ہے جو انسان کو ایک ایسی مخلوق کے طور پر پیش کرتی ہے جس کی تخلیق مٹی سے ضرور ہوئی، لیکن اسے “نفختُ فیه من روحی” (میں نے اس میں اپنی روح میں سے پھونکی) کے شرف سے سرفراز کیا گیا اور یہی شرف نفخ روح اسے دیگر تمام مخلوقات سے ممتاز اور اس کے مقام انسانی کو مابعدالطبیعیاتی رفعت عطا کرتا ہے۔
تخلیق انسان میں فطرت کا مقام
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے خطبات نہج البلاغہ پر غور کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ آپ نے انسان کی غیر مادی اور ماورائی ساخت کے بیان میں جہاں “روح” کے مفہوم کو اختیار کیا، وہیں “فطرت” جیسے گہرے اور معنوی تصور کو بھی اہمیت دی ہے۔
“فطر” لغت میں کسی شے کو ظاہر کرنے، ابتدا دینے، یا پہلی بار وجود میں لانے کے معنی میں آتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اکثر “پیدائش” اور “خلقت” کے سیاق میں استعمال ہوا ہے۔ اسی بنیاد پر، “فطریات” ان امور کو کہا جاتا ہے جو انسان کی ابتدائی تخلیق کا جزو ہوں اور جو کسی اکتساب یا بیرونی اثر کے بغیر اس کی ذات میں ودیعت کیے گئے ہوں۔
نہج البلاغہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مولا علی علیہ السلام انسان کی جوہری ساخت اور اس کی حقیقت کو ‘توحید’ سے جوڑتے ہیں اور اسی توحیدی شناخت کو “فطرت” کے نام سے تعبیر فرماتے ہیں:
إِنَّ أَفْضَلَ مَا تَوَسَّلَ بِهِ الْمُتَوَسِّلُونَ إِلَى اللَّهِ… وَ كَلِمَةُ الْإِخْلَاصِ فَإِنَّهَا الْفِطْرَةُ
بیشک سب سے برتر وسیلہ، جس کے ذریعے متوسلین خدا کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرتے ہیں… وہ توحید کا کلمہ ہے، اور یہی فطرت ہے۔ نہج البلاغہ خ 110
اس نورانی بیان سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ معرفت توحید کوئی بیرونی تصور نہیں، بلکہ وہ حقیقت ہے جو خداوند متعال نے انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہے۔ اگر انسان کی فطرت بگاڑ کا شکار نہ ہو اور اسے گمراہ کن تعلیم، تربیت یا مشرکانہ ماحول سے آلودہ نہ کیا جائے، تو وہ فطری طور پر موحد ہوگا،یعنی خدا کی وحدانیت کا ماننے والا، نیکی کا طالب، اور عدل و حق کا طرفدار۔
اسی لیے انبیاء مبعوث کیے گئے تاکہ انسان کو اس کی اصل فطرت، یعنی اس کی خداداد توحیدی پہچان، کی طرف واپس پلٹایا جائے۔
اسی مفہوم کو مولا علی علیہ السلام ایک اور بلیغ بیان میں یوں ادا فرماتے ہیں:
وَ اصْطَفَى سُبْحَانَهُ مِنْ وَلَدِهِ أَنْبِيَاءَ… لِيَسْتَأْدُوهُمْ مِيثَاقَ فِطْرَتِهِ
پس خدائے سبحان نے ان کی نسل سے انبیاء کو منتخب فرمایا… تاکہ وہ لوگوں سے فطرت کے میثاق کو واپس طلب کریں۔ نہج البلاغہ خ 1
یعنی انبیاء کی بعثت کا ایک بنیادی ہدف یہ ہے کہ وہ انسان کو اس فطری پیمان کی یاددہانی کرائیں جو اس کے وجود میں روز اول سے پیوست ہے۔
مولا ایک اور مقام پر اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
وَ جَابِلَ الْقُلُوبِ عَلَى فِطْرَتِهَا شَقِيِّهَا وَ سَعِيدِهَا
اور اے وہ ذات جس نے خوش بخت اور بدبخت، دونوں کے دلوں کو فطرت (توحیدی) پر پیدا کیا۔نہج البلاغہ خ 72
یہ کلام اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر انسان کا دل “لا إله إلا الله” کی گواہی پر بنایا گیا ہے؛ گویا توحید اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ اگر انسان اس حقیقت کو فراموش کر دے، تو وہ دراصل اپنی اصل ذات سے بیگانہ ہو جاتا ہے اور اس لمحے اس کی حقیقت بدلنے لگتی ہے۔ جوادی آملی، رحیق مختوم، ص 97
انسان کی آفرینش میں قلب کا مقام
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے انسان کی حقیقت کو تشکیل دینے میں روح اور فطرت کے علاوہ قلب کو بھی مرکزی اہمیت دی ہے۔ آپ کا مقصد یہاں وہ عضوی قلب نہیں ہے جو جسم میں بائیں طرف واقع ہوتا ہے اور خون کو رگوں میں پمپ کرتا ہے، بلکہ مراد وہ بلند و عالی حقیقت ہے جو اس عضو سے بالکل مختلف ہے۔
قلب، انسان کی سب سے گہری اور اصلی حقیقت کی نمائندگی کرتا ہے، جو باقی تمام سطحات وجود پر اثرانداز ہوتی ہے اور ان سے متاثر بھی ہوتی ہے۔ اگر قلب میں اضطراب اور بے سکونی ہو، تو وہ انسان کی ظاہری حالت پر اثر انداز ہو کر ایک طوفان کی مانند پھیل جاتا ہے، لیکن اگر قلب میں سکون اور قرار ہو، تو انسان کی ساری شخصیت پر اس کا مثبت اثر پڑتا ہے، اور وہ سکون کا تجربہ کرتا ہے۔
نہج البلاغہ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام علی علیہ السلام نے قلب کو ایک منفرد حیثیت دی ہے، جو روح اور فطرت سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ روح اور فطرت کے الفاظ نہج البلاغہ میں تقریباً دس بار استعمال ہوئے ہیں، جب کہ قلب کا ذکر سو بار سے زائد بار آیا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ امام علی علیہ السلام کے نزدیک انسان کی روحانی ساخت میں قلب کا مقام کتنی بلند سطح پر ہے۔
قلب کی حقیقت اور خدا کا مشاہدہ
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے نزدیک، قلب نہ صرف انسان کی اصل حقیقت کا مرکز ہے بلکہ یہ خداوند متعال کے مشاہدے کا حامل بھی ہے۔ ایک مشہور روایت میں ذعلب یمانی نے امام سے سوال کیا کہ کیا آپ نے اپنے پروردگار کو دیکھا؟ تو حضرت نے جواب دیا:
کیا میں اس کی عبادت کرتا ہوں جسے میں نے نہیں دیکھا؟
ذعلب نے پھر سوال کیا: آپ خدا کو کیسے دیکھتے ہیں؟ تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
آنکھیں اسے ظاہری طور پر نہیں دیکھ سکتیں، مگر دل ایمان کی حقیقت سے اسے سمجھ لیتے ہیں۔ نہج البلاغہ، خطبہ 137
یہ کلمات نہ صرف قلب کی بصیرت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ حقیقت کو سمجھنے اور اسے محسوس کرنے کی صلاحیت حواس طبعی سے بالاتر ہے۔ یہ دل کی وہ بصیرت ہے جو عقل کے تصورات اور ظاہری حواس سے بلند ہوتی ہے، اور جو ایک فطری اور غیر محسوس حقیقت کو گہری نوعیت سے ادراک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قلب کا یہ مقام، انسان کی روحانیت میں ایک گہرائی پیدا کرتا ہے اور اس کی حقیقت کو دریافت کرنے کے لیے دل کی بصیرت ضروری ہے۔
نتیجہ گیری
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی نظر میں انسان کی آفرینش کی حقیقت دو اہم ساحتوں میں تقسیم ہوتی ہے: مادی اور غیر مادی۔ آپ کی تعلیمات کے مطابق، انسان کا اصل جوہر اس کی غیر مادی حقیقت میں پوشیدہ ہے، جو اس کے روح، فطرت، اور قلب جیسے عناصر کے ذریعے تشکیل پاتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں ان ساحتوں کی اہمیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ انسان کی اصل حقیقت ان عناصر میں مضمر ہے جو اس کے دینی، اخلاقی، اور روحانی ارتقاء کا باعث بنتے ہیں۔
روح، فطرت، اور قلب انسان کی معنوی حقیقت کے بنیادی ستون ہیں، اور ان کے ذریعے انسان کو انسانیت کی اعلیٰ صفات حاصل ہوتی ہیں۔ ان ساحتوں کا تعلق انسان کی اخلاقی، دینی، اور روحانی زندگی سے ہے، اور یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، جو انسان کو اس کی اصلی حقیقت سے روشناس کراتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کی تعلیمات میں یہ عناصر نہ صرف انسان کی فطری بنیادوں کے طور پر پیش کیے گئے ہیں، بلکہ یہ انسان کی روحانی ترقی اور تکمیل کے لیے بھی اہم سمجھے گئے ہیں۔
آپ کی یہ تعلیمات ایک مکمل نظامِ فکر کو تشکیل دیتی ہیں، جو انسان کی روحانیت، اخلاق اور داخلی حقیقت کو سامنے لاتی ہے۔ اس کے ذریعے انسان کو اپنی فطرت کے صحیح پہلوؤں کو پہچاننے اور ان کی تکمیل کے راستے پر چلنے کی رہنمائی ملتی ہے۔
ماخذ
- قرآن کریم
- الموسوی (الشریف الرضی)، أبوالحسن محمدبن الحسین، نہج البلاغہ، ترجمہ محمد دشتی، چودہواں ایڈیشن، قم، انتشارات الہادی ۱۳۸۰۔
- ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغه، تحقیق: عبدالسلام محمد هارون، بیروت دارالفکر۔
- جعفری، محمدتقی، ترجمہ و تفسیر نہج البلاغہ، پانچواں ایڈیشن، تہران دفتر نشر ثقافت اسلامی۔
- حسینی زبیدی، محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، دوسرا ایڈیشن، کویت مطبعه حکومت الکویت۔
- صدرالدین، محمد، الحکمه المتعالیه فی الاسفار العقلیه الاربعه، دوسرا ایڈیشن، قم، مکتبه المصطفوی۔
- ابن سینا، النجاه من الغرق فی بحر الضلال، انتشارات دانشگاه تہران، ۱۳۶۴۔
- آیت الله جوادی آملی، عبدالله، رحیق مختوم: شرح حکمت متعالیه، مرکز بین المللی نشر اسراء۔
- غیاثی، نقی، (۱۳۹۷)، بازجست ساحت های وجودی انسان از منظر نهج البلاغه۔ پژوهشنامه نہج البلاغہ، دوره ۶، شماره ۲۲، ۱-۱۸۔
کوئی تبصرہ نہیں! سب سے پہلا تبصرہ کرنے والے بنیں۔