فقیروں کا ہے کیا چاہے جہاں بستی بسا بیٹھے
علی والے جہاں بیٹھے وہیں جنت بنا بیٹھے
فراز دار ہو مقتل ہو زنداں ہو کہ صحرا ہو
جہاں ذکر علی چھیڑا وہیں دیوانے آبیٹھے
کوئی موسم کوئی بھی وقت کوئی بھی علاقہ ہو
جلی عشق علی شمع اور پروانے آبیٹھے
علی والوں کا مرنا بھی کوئی مرنے میں مرنا ہے
چلے اپنے مکاں سے اور علی کے در پہ جا بیٹھے
ادھر ہم نے کیا رخصت ادھر آئے علی لینے
یہاں سب رورہے ہیں ہم وہاں محفل سجا بیٹھے
ابھی میں قبر میں لیٹا ہی تھا اک نور سا پھیلا
مری بالیں پہ آگر خود علی مرتضی بیٹھے
ادب کے ساتھ میں نے سر رکھا مولا کے پیروں پر
کہا مجھ سے سناؤ بوذر و سلماں بھی آ بیٹھے
علی کے نام کی محفل سجی شہر خموشاں میں
تھے جتنے بافاوہ سب کے سب محفل میں آبیٹھے
صدارت کے لیے تشریف لے آئے ابو طالب
چچا کے پاس آکر خود محمد مصطفی(ص) بیٹھے
علم عباس کا آیا زیارت کو ملک اٹھے
علم کے سائے میں جتنے تھے ماتم دار آ بیٹھے
عزاداروں کے مرنے کا ہے بس اتنا سا افسانہ
کہ جیسے کوئی مسجد سے عزا خانے میں جا بیٹھے
یہ کون آیا کہ استقبال کو سب انبیاء اٹھے
نہ بیٹھے گا کوئی تب تک نہ جب تک فاطمہ بیٹھے
نظامت کے لیے مولا نے خود میثم کو بلاوایا
وہ لہجہ تھا کہ سب دانتوں تلے انگلی دبا بیٹھے
عزادارو ں کے نعروں نے رضا ایسا سماں باندھا
کہ خود مولا بھی اپنے نام کا نعرہ لگا بیٹھے
کوئی تبصرہ نہیں! سب سے پہلا تبصرہ کرنے والے بنیں۔