یہ شرح نامور عالم دین اور ادیب، تاجالاسلام سید ضیاءالدین ابوالرضا فضلاللّٰہ بن علی راوندی کی تصنیف ہے، جو چھٹی صدی ہجری کے ممتاز شیعہ علما و فضلا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی علمی حیثیت کے ساتھ ساتھ اس شرح کی ایک خاص اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سفرِ نجف کے دوران نہج البلاغہ کے ایک قدیم اور مستند نسخہ کا براہ راست مشاہدہ کیا اور اسی کی بنیاد پر اپنے لیے ایک نقل تیار کی، جس کی کتابت ربیع الاول ۵۱۱ ہجری میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے نہ صرف اس نقل کا اصل نسخہ سے تقابل کیا بلکہ بعض مقامات پر ضروری توضیحات بھی درج کیں۔
یہ توضیحات اگرچہ زیادہ تر لغوی نوعیت کی ہیں اور سطور کے درمیان درج کی گئی ہیں، تاہم ان سے نہ صرف مصنف کے فہم عمیق کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ نہج البلاغہ کی تفہیم میں بھی مدد ملتی ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ بعض اہل علم جنہوں نے سید فضلاللّٰہ کو شارح نہج البلاغہ تسلیم نہیں کیا، ان کی رائے کی بنیاد انہی مختصر اور غیر مفصل توضیحات پر ہو سکتی ہے، جنہیں وہ “شرح” کے درجے میں شمار نہیں کرتے۔ تاہم اگر شرح کے مفہوم کو وسیع تر معنوں میں لیا جائے تو سید فضلاللّٰہ بلاشبہ اولین شارحینِ نہج البلاغہ میں قرار دیے جا سکتے ہیں۔
اب تک نہج البلاغہ کے دو ایسے نسخہ دریافت ہو چکے ہیں جن میں سید فضلاللّٰہ کی توضیحات و حواشی، ان کی اصل نقل کی طرز پر، سطور کے درمیان درج ہیں۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
الف۔ آیت اللّٰہ مرعشی نجفی کی لائبریری کا نسخہ (شمارہ ۲۷۳)
یہ نسخہ محمد صادق بن محمد شفیع یزدی کے قلم سے ہے، جو انہوں نے سنہ ۱۱۳۲ ہجری میں ابو الفتوح احمد بن ابی عبداللّٰہ بلکو بن ابی طالب آبی کی نقل سے تیار کیا۔ ابو الفتوح نے اپنی یہ نقل سید فضلاللّٰہ کے اصل نسخہ سے مرتب کی تھی۔
ب۔ رامپور (ہند) کی لائبریری کا نسخہ (شمارہ ۵۰۴۶)
یہ نسخہ عبدالجبار بن حسین ابیالقاسم فراهانی کی تحریر ہے، جو سید فضلاللّٰہ کے نسخے سے براہ راست نقل کیا گیا۔ اس کی کتابت ۱۹ جمادی الاول ۵۵۳ ہجری کو مکمل ہوئی۔ اس نسخہ کا مائیکروفلم شمارہ ۷۰۴۹، مرکزی لائبریری جامعۂ تہران میں موجود ہے۔
یہ شرح تاحال طبع نہیں ہوئی، لیکن علمی اہمیت کے پیش نظر مناسب ہوگا کہ اسے یا تو ایک مستقل اثر کے طور پر شائع کیا جائے، یا کسی مستند مطبوعہ نہج البلاغہ کے حاشیے میں شامل کیا جائے۔ ابن یوسف شیرازی کے مطابق، ابن عتائقی نے بھی اپنی شرح نہج البلاغہ میں، سید فضلاللّٰہ کی اس شرح سے استفادہ کیا ہے۔
آقا بزرگ تہرانی کی الذریعہ، سید عبدالعزیز طباطبائی کا مقالہ فی رحاب نہج البلاغہ، اور بعض فہارس مخطوطات میں بھی سید فضلاللّٰہ کی اس شرح کا ذکر موجود ہے، جو اس کی تاریخی حیثیت اور علمی وقعت کا واضح ثبوت ہے۔
مآخذ:
- سید احمد حسینی اشکوری، فہرست نسخہهای خطی کتابخانه آیتاللّٰہ مرعشی، جلد 1، ص 302
- محمدتقی دانشپژوه، فہرست میکروفیلمهای کتابخانه مرکزی دانشگاه تهران، جلد 3، ص 126
- ابن یوسف شیرازی، فہرست نسخههای خطی کتابخانه مدرسه عالی سپهسالار، جلد 2، ص 125
- آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، جلد 14، ص 143
- سید عبدالعزیز طباطبائی، فی رحاب نہج البلاغہ، مجلہ تراثنا، شمارہ 35 و 36، ص 170
کوئی تبصرہ نہیں! سب سے پہلا تبصرہ کرنے والے بنیں۔