قدامہ بن مظعون نے شراب نوشی کی۔ جب خلیفہ دوم عمر بن خطاب کو اس کی خبر ملی، تو انہوں نے اس پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر قدامہ نے دفاع میں کہا:
میرے اوپر حد لاگو نہیں ہو سکتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
لَیْسَ عَلَى الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا، إِذَا مَا اتَّقَوا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، ان پر ان چیزوں میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھا پی چکے، بشرطیکہ وہ پرہیزگار بنیں، ایمان لائیں اور نیک عمل کرتے رہیں۔
قدامہ نے دعویٰ کیا کہ وہ ایمان اور تقویٰ رکھتا ہے، اس لیے اس پر کوئی حد عائد نہیں ہوتی۔ عمر اس دلیل سے وقتی طور پر قانع ہو گئے اور حد روک دی۔
جب امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالبؑ کو اس واقعہ کا علم ہوا، تو وہ خود عمر کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:
تم نے قدامہ پر حد کیوں نہ جاری کی؟
عمر نے كہا: اس نے میرے سامنے یہ آیت پڑھی اور خود کو اس کا مصداق قرار دیا۔
حضرت علیؑ نے فرمایا:
قدامہ ہرگز اس آیت کا مصداق نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں، وہ کبھی حرام کو حلال نہیں سمجھتے۔ اگر قدامہ نے شراب کو مباح سمجھا ہے تو وہ گمراہی میں مبتلا ہے۔ لہٰذا، اسے دوبارہ طلب کرو اور اس سے مطالبہ کرو کہ وہ اپنی اس گمراہ کن تاویل پر توبہ کرے۔ اگر وہ توبہ کر لے تو اس پر حد نافذ کرو اور اگر انکار کرے تو اسے قتل کر دو، کیونکہ وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو چکا ہے۔
یہ سن کر عمر سخت متعجب ہوئے اور فوراً قدامہ کو بلایا۔ جب قدامہ کو معاملے کی اصل حقیقت کا شعور ہوا تو اس نے ندامت کا اظہار کیا اور توبہ کر لی۔ چنانچہ عمر نے اس کے قتل کا ارادہ ترک کر دیا۔
اب حد شراب نافذ کرنے کا وقت آیا، مگر عمر کو تازیانوں کی صحیح تعداد معلوم نہ تھی۔ انہوں نے دوبارہ حضرت علیؑ سے رجوع کیا۔
حضرت علیؑ نے فرمایا:
اس پر اسی (۸۰) کوڑے مارے جائیں، کیونکہ شراب پینے والا مست ہو جاتا ہے، مست ہو کر بے ہودہ باتیں کرتا ہے اور لوگوں پر تہمتیں لگاتا ہے، اور تہمت کی حد بھی اسی کوڑے ہے۔
چنانچہ عمر نے حضرت علیؑ کی ہدایت کے مطابق حد جاری کی۔
حاصل حکایت
یہ واقعہ نہ صرف حضرت علیؑ کی فقاہت اور قرآنی فہم کا آئینہ دار ہے، بلکہ یہ اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ ظاہری الفاظ کا سہارا لے کر دین کے احکام سے انحراف ممکن نہیں۔ حضرت علیؑ نے ثابت کیا کہ تقویٰ اور ایمان صرف دعوے سے نہیں، عمل اور نیت کی گہرائی سے پہچانے جاتے ہیں۔
کوئی تبصرہ نہیں! سب سے پہلا تبصرہ کرنے والے بنیں۔