اس حدیث کے آغاز میں رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں: ”الست اولیٰ بکم من انفسکم“ آیا میں تم سے تمہارے نفسوں کی بہ نسبت زیادہ اولیٰ نہیں ہوں؟ اسی وقت اس سوال پراس جملے کا اضافہ فرماتے ہیں:فمن کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ۔ ان دونوں جملوں کی ہم آھنگی اور ایک دوسرے سے نزدیکی یہی ثابت کرتی ہے کہ مولیٰ، ”اولیٰ بہ تصرف“ ہی کے معنی میں ہے۔
حدیث غدیر اس واقعہ سے مربوط ہے جو رسول اسلام کی عمر کے آخری حصے میں آپ کے حجة الوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر نامی مقام پر پیش آیاتھا۔ غدیر خم اس جگہ کا نام ہے جہاں سے مصری اور عراقی حجاج اور مدینے کی سمت جانے والے افراد ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے۔
واقعہٴ غدیر کی تفصیل یہ ہے کہ سن ۱۰ میں رسول اسلام (ص) مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے ساتھ حجة الوداع کے لئے روانہ ہوتے ہیں اور مراسم حج کے خاتمے کے بعد مدینہ واپس جانے کے لئے مکہ سے رخصت ہوتے ہیں۔ رسول اکرم کی جانب سے فرمان حرکت جاری ہوتا ہے۔ جیسے ہی قافلہ ”حجفہ“ سے تین میل کے فاصلے پر واقع مقام ”رابغ“ پہونچتاہے، جبرئیل امین غدیرخم نامی مقام پررسول خدا کے لئے خداوندعالم کا پیغام لےکر نازل ہوتے ہیں:
اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اسے پہونچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو گویا اپنی رسالت کو نہیں پہونچایا اور خدا آپ کولوگوں (کے شر )سے محفوظ رکھے گا۔ (۵)
اس آیت کے نازل ہوتے ہی پیامبر اکرم نے قافلے کو ٹہرنے کا حکم دیدیا۔ جو افراد قافلے سے آگے بڑھ گئے تھے انہیں واپس آنے کا حکم دیا اور جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا۔ ظھر کا وقت تھا اور شدید گرمی ۔ ایک درخت پر ایک چادر پھیلا کر رسول خدا کے لئے ایک سائبان تیار کیا گیا۔رسول اکرم نے نماز ظھر باجماعت ادا کی۔پھر اس حالت میں کہ مجمع آپ کے اردگرد پھیلا ہوا تھا، آپ نے اونٹوں کے کجاؤوں سے تیار شدہ منبرپرآکربلنداور رسا آواز میں مندرجہ ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:
”حمد وثناخدا ذات کبریا سے مخصوص ہے۔ ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں نیز اسی پر توکل کرتے ہیں۔ اپنی برائیوں اور برے اعمال سے خداکی پناہ مانگتے ہیں وہ خدا جس کے علاوہ نہ کوئی ہادی ہے اور نہ کوئی راہنما۔ اس نے جس کو ہدایت عطا فرمادی، پھر کوئی اسے گمراہ نہیں کرسکتا۔ میں گواہی دتیا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔
ایہا الناس! اب وہ وقت آچکا ہے کہ میں دعوت حق پرلبیک کہوں اور تمہارے درمیان سے چلا جاؤں۔ میں بہی مسئول ہوں اور تم بہی مسئول ہو۔ میرے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟
”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنی رسالت کا حق بخوبی انجام دیا ہے اور اس سلسلہ میں اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائے ہیں۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔“
کیا تم لوگ گواہی دیتے ہو کہ معبود کائنات فقط ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے نیز جنت و دوزخ اور ابدی زندگی قطعی ہیں؟
”ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔“
ایها الناس! میں تمھہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ تم ان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کروگے؟
اسی درمیان کوئی شخص بلند ہوا اور سوال کیا: ”وہ دو چیزیں کیا ہیں؟“
”ایک خدا کی کتاب کہ جس کا ایک حصہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھ میں اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہل بیت۔ میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ھرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگے۔“
ایها الناس! خود کو قرآن و اہل بیت پر مقدم نہ کرنا اور اپنے عمل میں ان دونوں کے ساتھ حق تلقی نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔“
اس موقع پر رسول اکرم(ص) نے علی علیہ السلام کے ہاتھ کو تھاما اور اس قدر بلند کیاکہ آپ دونوں حضرات کے زیر بغل کی سفیدی تمام افراد کے لئے نمایاں ہوگئی۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا تعارف کرایا اور پھر فرمایا:
”ایها الناس! من اولیٰ الناس بالمؤمنین من انفسهم؟“
ائے لوگوں!مؤمنین کے نفوس پر خود ان سے زیادہ اولی ہے؟۔
”خدا اور اس کا رسول۔“
”ان الله مولای وانا مولیٰ المومنین وانا اولیٰ بهم من انفسهم فمن کنت مولاه فعلی مولاه“
خدا میرا مولا اور میں مؤمنین کا مولا ہوں اور میں ان پر خود ان سے زیادہ اولیٰ ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔
بقول احمد بن حنبل رسول اکرم(ص) نے اس جملے کو چار بار دھرایا اور پھر فرمایا:
”اللهم وال من والاه وعاد من عاداه واحب من احبه وابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله وادر الحق معه حیث دار “
خداوندا! تو بھی انہیں دوست رکھ جو علی کو دوست رکھتے ہیں اور انہیں دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھتے ہیں۔ ان سے محبت کر جو علی سے محبت کرتے ہیں اور جن کے دل میں علی کے بارے میں کینہ ہے ان پر اپنا غیض وغضب نازل کر۔ اس کے دوستوں کی مدد فرما اورجو اس کو نقصان پہونچائے اس کو ذلیل ورسوا کر دے اور علی کو محور حق قراردے“۔
سند حدیث غدیر
حدیث غدیر ایک مشھور ومعروف حدیث ہے جس کو شیعہ اور سنی دونوں گروہوں نے متعدد طرق سے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے نیز دونوں فرقہ اس حدیث پراعتقاد و یقین رکھتے ہیں یہاں تک کہ شیعی علماء کے علاوہ بعض اہل سنت علماء نے بھی اس حدیث پر باقاعدہ ایک باب کے تحت مفصل بحث کی ہے مانند ابوجعفر محمد بن جریر طبری (۳۱۰)، ابوالعباس احمد بن سعید ھمدانی (۳۳۳ )اور ابوبکر محمد بن عمر بن محمد بن سالم تمیمی بغدادی (۳۵۵) وغیرہ ۔ علامہ امینی طاب ثراہ نے اپنی معرکة الآراء کتاب الغدیر میں ان تمام افراد کے اسماء کا تذکرہ کیا ہے جنھوں نے اس حدیث سے متعلق کتابیں لکھی ہیں نیز آپ نے اپنی کتاب میں ان افراد کی کتابوں کی خصوصیات بھی درج فرمائی ہیں۔
اس حدیث کو نقل کرنے اور محفوظ رکھنے کے لئے تابعین، تبع تابعین، علماء اور فقہاء نے کس قدر اہتمام کیا تھا اس کا اندازہ اگرہوجائے تو حقیقت مزید واضح ہوجائے گی۔ یہاں اس سلسلے میں ہر صدی کے بعض اہل سنت علماء کی تعداد نقل کی جارہی ہے بقیہ تفصیل ان مفصل کتابوں کے حوالے کی جارہی ہے جواس سلسلہ میں لکھی گئی ہیں۔ اس حدیث کے ناقل اس طرح ہیں:
۱۔ ۱۱۰/صحابہ
۲۔ ۸۴/تابعین
۳۔ ۵۶/ علمائے قرن دوم
۴۔ ۹۲/ علمائے قرن سوم
۵۔ ۴۳/علمائے قرن چھارم
۶۔ ۲۴/علمائے قرن پنچم
۷۔ ۲۰/علمائے قرن ششم
۸۔ ۲۰/علمائے قرن ھفتم
۹۔ ۱۹/علمائے قرن ھشتم
۱۰۔ ۱۶/علمائے قرن نھم
۱۱۔ ۱۴/علمائے قرن دھم
۱۲۔ ۱۲/علمائے قرن یازدھم
۱۳۔ ۱۳/ علمائے قرن دوازدھم
۱۴۔ ۱۲/ علمائے قرن سیزدھم
۱۵۔ ۱۹/ علمائے قرن چھاردھم
اہل سنت و الجماعت کے بزرگ ومعتبر محدثین میں سے احمد بن حنبل شیبانی نے ۴۰/سندوں، ابن حجر عسقلانی نے ۲۵/سندوں، جزری شافعی نے ۸۰/سندوں، ابوسعید سجستانی نے ۱۲۰/سندوں، امیر محمد یمنی نے ۴۰/سندوں، نسائی نے ۲۵۰/ سندوں، ابوالعلاء ھمدانی نے ۱۰۰/سندوں اور ابولعرفانی حبان نے۳۰/سندوں کے ساتھ اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
مذکورہ اعداد وشمار علامہ امینی کی شھرہٴ آفاق کتاب ”الغدیر“ سے ماخوذ ہیں البتہ حدیث غدیر خم، اس کی سندوں اور مصادر سے مربوط، ”الغدیر“ کے علاوہ دوسری بہت سی کتابیں از جملہ ”غایة المرام“ مؤلف علامہ سید ھاشم بحرانی (م․ ۱۱۰۷) اور ”عبقات الانوار“مؤلف سید میرحامد حسین اعلیٰ الله مقامہ، لکھی گئی ہیں۔
مذکورہ نکات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ واقعہٴ غدیر خم اور اس دن رسول اکرم کا خطبہ، تاریخ اسلام کے مسلمات میں سے ہے۔ اگر کوئی شخص اس حقیقت کا انکار کرنا چاہے تو پھر وہ دوسرے کسی بھی تاریخی واقعہ کو قبول نہیں کرسکتا۔
دلالت حدیث
حدیث غدیر کا مرکزی نقطہ یہ جملہ ہے ”من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ“ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔ متعدد پائے جانے والے قرائن وشواھد کے مدنظر اس حدیث شریف میں مولیٰ، ”اولیٰ“ یعنی سزوار تر کے معنی میں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اکرم کے بعد حضرت علی علیہ السلام مسلمانوں کے ولی اور سرپرست ہیں اور ان کے نفوس پر ان کی بہ نسبت زیادہ اولیٰ ہیں۔ اس سلسلے میں بعض قرائن و شواھد مندرجہ ذیل ہیں:
۱) حدیث کے آغاز میں رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں: ”الست اولیٰ بکم من انفسکم“ آیا میں تم سے تمہارے نفسوں کی بہ نسبت زیادہ اولیٰ نہیں ہوں؟ اسی وقت اس سوال پراس جملے کا اضافہ فرماتے ہیں:فمن کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ۔ ان دونوں جملوں کی ہم آھنگی اور ایک دوسرے سے نزدیکی یہی ثابت کرتی ہے کہ مولیٰ، ”اولیٰ بہ تصرف“ ہی کے معنی میں ہے۔
۲) حدیث کے ضمن میں رسول خدا فرماتے ہیں: ”اللهم وال من والاه وعاد من عاداه“ یہ دعا اس عظیم مقام کی طرف نشاندہی کرتی ہے جس پر حضرت علی علیہ السلام فائز ہوئے ہیں اور وہ مقام خلافت و ولایت کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔
۳) رسول خدا، وہاں موجود افراد سے گواہی لیتے ہیں اور جملہٴ من کنت مولاہ ․․․ کو وحدانیت خدا، اور رسالت پیغمبر کے ذیل میں ارشاد فرماتے ہیں۔ یہ بھی فقط اسی صورت میں قابل قبول ہے کہ جو کچھ اس جملے میں بیان ہوا ہے وہ اسی اہمیت اور منزلت کا حامل ہو جسکا جملہٴ ماقبل حامل ہے۔
۴) رسول اکرم کی گفتگو کے ختم ہونے اورمسلمانوں کے پراکندہ اور منتشر ہونے سے قبل جبرئیل نازل ہوتے ہیں اوراس آیت کی تلاوت فرماتے ہیں:اس کے بعد رسول خدا فرماتے ہیں: الله اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة رضی الرب برسالتی والولایة لعلی من بعدی“ آخر ایسی کونسی چیز ہوسکتی ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے علاوہ دین کوکامل کرنے والی اور نعمتوں کو تمام کرنے والی شمار کی جاسکے نیز جس کو رسالت کے کنارے کھڑا کیاجاسکے؟
دوسرے بہت سے ایسے قرائن بھی رسول گرامی کی اس مأموریت و ذمہ داری کی اہمیت وعظمت کی گواہی دیتے ہیں جو مسلمانوں کو ابلاغ اور ترسیل سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں مزید جستجو اور مطالعہ کے لئے علامہ امینی کی کتاب ”الغدیر“ کی دوسری جلد کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

کوئی تبصرہ نہیں! سب سے پہلا تبصرہ کرنے والے بنیں۔