اسلام کسی بھی طرح کی غلامی کی اجازت نہیں دیتا ۔لیکن سب سے بڑی غلامی انسان کی فکر اور روح کا غلام ہونا ہے۔جو انسان یا قوم فکر ی اور روحانی غلامی کا شکار ہو وہ مادی اور جسمانی طور پر کتنی بھی ترقی یافتہ اور آزاد ہو وہ درحقیقت غلام ہے لیکن جو روحانی اور فکری طور پر آزاد ہوتے ہیں وہ قید و بند میں رہنے کے باوجود بھی آزاد رہتے ہیں۔
خدا نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیاہے اور اسے آزاد بن کر رہنے اور آزاد زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے۔یہ وہ انسانی اور الٰہی قدرہے جس میں تمام انسان برابر ہیں۔اس لئے کوئی انسان دوسرے کسی انسان کو اورایک قوم کسی دوسری قوم کو غلام بنانے کی مجاز نہیں ہے ۔اور نہ ہی انسان کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ خودکو کسی کاغلام بنالے۔غلامی اور عبدیت کا یہ طوق بس خدا انسان کی گردن میں ڈال سکتا ہے اور انسان بس اسی کے آگے سرجھکا سکتا ہے،اسی لئے خداکے علاوہ کسی کو سجدہ جائز نہیں ہے کیونکہ سجدہ غلامی اور بندگی کا سب سے اہم مظہر ہے۔البتہ غلامی بھی کئی طرح کی ہے؛جسمانی غلامی،فکری غلامی،اقتصادی غلامی،روحانی غلامی۔اسلام کسی بھی طرح کی غلامی کی اجازت نہیں دیتا ۔لیکن سب سے بڑی غلامی انسان کی فکر اور روح کا غلام ہونا ہے۔جو انسان یا قوم فکر ی اور روحانی غلامی کا شکار ہو وہ مادی اور جسمانی طور پر کتنی بھی ترقی یافتہ اور آزاد ہو وہ درحقیقت غلام ہے لیکن جو روحانی اور فکری طور پر آزاد ہوتے ہیں وہ قید و بند میں رہنے کے باوجود بھی آزاد رہتے ہیں۔ چنانچہ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کے نام لکھے اپنے مکتوب میں یہ تأکید فرمائی:’’وَ لاَ تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وَ قَدْ جَعَلَكَ اَللَّهُ حُرّاً‘‘۔ خبردار کسی کے غلام نہ بن جانا جب کہ پروردگار نے تمہیں آزاد بنایا ہے۔
چونکہ آزادی کرامت و عزت کی ایک شکل ہے۔امیر المؤمنین علیہ السلام کا یہ جملہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے کیونکہ یہ حقوق انسانی کا وہ منشورہے جو ہر انسان کے مدنظر ہونا چاہیے۔
آزادی کی قدر صرف زندہ ضمیر انسان کرتے ہیں چنانچہ رسول اسلام(ص)کے بعد تیسری خلافت کے زمانے میں ایک شخص درہم و دینار کی ایک تھیلی حضرت ابوذر غفاری کے پاس لے کر آیا اور بولا:یہ خلیفہ نے آپ کے لئے ہدیہ بھیجا ہے۔حضرت ابوذر نے پوچھا:کیا یہ کرم نوازی تمام مسلمانوں کے ساتھ ہوئی ہے یا صرف مجھ سے مخصوص ہے؟ اس نے کہا: یہ آپ جیسے عظیم انسانوں کے لئے ہے۔جناب ابوذر نے وہ مال واپس کردیا اور لینےسے انکار کردیا۔وہ شخص ایک غلام تھا اس نے اصرار کیا کہ اگر آپ یہ پیسے لے لیں گے تو مجھے آزاد کردیا جائے گا،کیا آپ نہیں چاہتے ہیں کہ ایک غلام کو آزاد کردیا جائے؟جناب ابوذر نے بڑا خوبصورت جواب دیا:میں تمہاری آزادی کا تو خواہاں ہوں لیکن خود کو غلام بناکر تمہیں آزاد نہیں کراسکتا۔
آزادی وہ قدر ہے جس کے ساتھ دوسری بہت سی اقدار جڑی ہوئی ہے اس لئے اس کی حفاظت ہر حال میں ضروری ہے۔امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:’’خَمسُ خِصَالٍ مَن لَم یَکُن فِیه شَئٌی مِنها لَم یَکُن فِیه کَثِیرُ مُستَمَعٍ:اَوَّلُها الوَفَاءُ وَالثَّانِیَة التَّدبِیرُ وَالثَّالِثَة الحَیَاءُ وَالرَّابِعَة حُسنُ الخُلقِ وَالخَامِسَة وَهیَ تَجمَعُ جَمِیعَ خِصَالٍ الحُرِّیَّة‘‘۔(خصال،ج۱،ص۲۸۴،ح۳۳)پانچ چیزیں ایسی ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی اگر کسی کے اندر نہ پائی جائے تو اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔پہلی وفا،دوسری تبدیر،تیسری حیا،چوتھی حُسن اخلاق اور پانچویں چیز جس کے اندر تمام چیزیں سمٹی ہوئی ہیں وہ ہے آزادی۔
کوئی تبصرہ نہیں! سب سے پہلا تبصرہ کرنے والے بنیں۔