فرمان ہے خدا کا حدیث رسول ہے مقبول ہے نماز تو سب کچھ قبول ہے
ورنہ عبادتوں کی یہ زحمت فضول ہے دین خدا کا ایک اک روشن اصول ہے
بھولو نہیں جو شرط قبول نماز ہے
وہ ہے ولا علی کی ولیوں کا ناز ہے
کیسا چمن کہ جس میں گل با صفا نہ ہو ظلمت کی شب دراز ہو لیکن دیا نہ ہو
کیسے ہو کرہ ارض اگر کربلا نہ ہو کیسی نماز وہ ہے کہ جس میں ولا نہ ہو
کعبہ مکاں ہے جب تلک اس میں مکیں نہ ہو
کعبہ نمازیوں کا کبھی بھی امیں نہ ہو
اصنام کے پجاری ہوئے ہیں حزین کیوں ؟ کعبہ میں ہے ورود وزیر امین کیوں؟
سورج کے بعد ابھرا ہے ماہ مبین کیوں؟ اللہ نے مکان میں بھیجا مکین کیوں؟
کیسا لگے صدف اگر گوہر نشیں نہ ہو
کیسی انگوٹھی جس کی جبیں پر نگیں نہ ہو
تحصیل جب کہ شرط طہارت کی کرسکو معراج ہے نماز تو معراج کو بڑھو
جب بھی نماز پڑھنے لگو کعبے کو پھرو ہمراہ بدن کے دل بھی کچھ قبلہ رخ کرو
سیرت نبی کی سامنے لانا نمازیوں
بسم اللہ پڑھنا بھول نہ جانا نمازیوں
کعبہ صدف ہے جس کا ہے گوہر علی ولی کعبہ انگشتری ہے تو جوہر علی ولی
کعبہ ہے قبلہ جس کا ہے دلبر علی ولی کعبہ نشاں ہے جس کا ہے محور علی ولی
کعبہ کو رخ کرو تو مشخص امام ہو
اعماق جاں سے مولا علی پر سلام ہو
نزدیک جب تولد عیسی ہوا حضور آئی صدا یہ مادر عیسی کو جاؤ دور
دیوار کعبہ شق ہوئی دیکھا علی کا نور بنت اسد کے دل میں اجاگر ہوا سرور
عیسی بھی پاک مادر عیسی بھی پاک ہیں
لیکن علی علی ہیں وہ قدموں کی خاک ہیں
در اک طرف تھا بنت اسد دوسری طرف گوہر کو دیکھا کھل گیا دیوار سے صدف
چاروں طرف سے حوریں مؤدب ہیں صف بہ صف قبلہ ہے شاد گویا اسے مل گیا ہدف
بے جان تو ہیں بت مگر کچھ بھانپنے لگے
شیر خدا کو دیکھ کر سب کانپنے لگے
آنکھیں ہیں بند کہ محرم اسرار ہے کہاں؟ بے چین ہیں کہ سید ابرار ہے کہاں ؟
جس کا ملا ہے وعدہ دیدار ہے کہاں ؟ اے رب کعبہ احمد مختار ہے کہاں ؟
دست نبی پہ آنکھیں علی کھولنے لگے
دیکھا نبی کو اور پھر کچھ بولنے لگے
تحریر:جناب علی نقوی صاحب

کوئی تبصرہ نہیں! سب سے پہلا تبصرہ کرنے والے بنیں۔